• news
  • image

اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک

سیاست ایک ایسا بے رحم کھیل ہے جہاں دوست دشمن بدلتے رہتے ہیں تاکہ اقتدار کا گھنا درخت حکمرانوں کے بچوں کی جھولیوں کو ہیرے جواہرات سے بھرا رکھے تاکہ انھیں بھی مسندِ اقتدار تک آنے میں مشکل درپیش نہ آئے اور حکمرانوں کے بچوں کے پیچھے اپنی زندگیاں سیاست میں گزارنے والے بابے ڈھیٹ بن کے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں ۔سابقہ الیکشنز کا جوڑ توڑ شروع ہو چکا تھا شریف خاندان سمجھ رہا تھا کہ عمران خان کہیں ان کے راستے کا پتھر نہ بن جائے اسے مینج کرنا چاہیے ۔ چنانچہ اس سے بات چیت شروع ہوئی اور بڑی رازداری سے اسے موم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آخری ملاقات میں عمران خان 70سیٹیں مانگ رہا تھا تو اسے 30سیٹیں دینے اور وزیر خارجہ بنانے کی آفر کی گئی مگر پھر فائنل میٹنگ نہیں ہو سکی۔ شریف خاندان تو منتظر تھا مگر عمران خان لوٹ کر نہیں آئے اگر لوٹ کر آجاتے تو یہ تبدیلی کیسے آتی۔ انسان پلاننگ کرتا رہتا ہے مگر اللہ کریم کی اپنی پلاننگ ہے۔ شریف خاندان کے اندر نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایک سے زیادہ وزیر اعظم کے امیدروار تھے اور شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ان کے گھر میں وزیر اعلیٰ کا امید وار موجود تھا۔ اقتدار کی جنگ میں سب سے زیادہ خطرناک رول خون کے رشتے ادا کرتے ہیں جن کی نشان دہی ہونے کے باوجود انھیں گلے لگانا مجبوری بن جاناتاہے ۔ میں نے بحیثیت سیاسی کارکن بڑے بھیانک کھیل دیکھے ہیں یہاں وفاداری نہیں دولت بکتی ہے ۔ ووٹ کو عزت دینے والے ایک ایک گھر میں موجودتمام بالغ افراد کو اسمبلی میں لے جانا اس گھر کا استحقاق سمجھتے ہیں۔ لاہور میں مثالیں موجود ہیں۔ میں نے جب سیاست میں قدم رکھا تو چند سالوں بعد تحریک نجات شروع ہو گئی ۔ میرے ساتھ مسلم لیگی تحریکی بہنیں بیٹیاں اور میرے تحریکی ساتھی اس وقت جوان تھے آج وہ بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں مگر ان کی تقدیر میں"شیر اک واری فیر "کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ جن سیاسی پنڈتوں کو پارٹی ٹکٹ مل جائے وہ اسمبلی میں بھی چلے جائیں پھر ان کے گھر وں سے سپیشل سیٹوں پر خواتین کاآنا بہت بڑی ناانصافی ہے۔ مگر پارٹی قیادت کے نزدیک شاید یہی "ووٹ کو عزت دو" کے جھوٹے نعرے کا نچوڑہے۔ موجودہ حکومت میں بھی ووٹ کو بڑی عزت دی گئی تحریک انصاف کے منتخب لوگوں کو نظر انداز کر کے غیر منتخب لوگوں کو امپورٹ کیا گیا اور انھیں بہت ہی حساس سیٹوں پر بٹھا دیا گیا ان میں سے بہت سے لوگوں کو پاکستانی قوم جانتی ہی نہیں ہے مگر وہ وزیر اعظم کے ساتھ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر بریفنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ بحیثیت پاکستانی میرے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے اور رہے گا۔ میرا یہ ایمان ہے کہ" انسان کے قاتل سے پہلے احسان کے قاتل کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے"۔
پتہ نہیں کیوں جدھر دیکھتا ہوں بڑی سیاسی جماعتوں میں چھوٹے موٹے سیاسی ڈکٹیٹر نظر آتے ہیں اور پھر ان کی طرف سے کی ہوئی وزیر اعظم کی توہین کو جمہوریت کا لبادہ پہنانے کیلئے بہت سے لوگ سامنے آجاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپوزیشن سے زیادہ اپنے مافیاز سے خطرہ ہے۔ کبھی غور فرمائیں تو دیکھیں ان کی زبانوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس طرح کی زبان کو مسلم لیگ" ن" میں استعمال کر کے دکھائیں؟ ان کی عقل کام نہیں کرتی کہ اللہ کے بعد عمران خان کی وجہ سے تم اتنے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہو ۔ پھر کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ چھوڑو یہ پارٹی کے اندر پٹھانوں کی لڑائی ہے اس کا آغاز جہانگیر ترین سے ہوا جو پٹھان ہیں پھر علیم خان کی باری آئی جو پٹھان ہیں پھر پرویز خٹک تک بات جا پہنچی جو پکے پٹھان ہیں۔ کاش انھیں یہ معلوم ہوتا کہ جس سے لڑ رہے ہو وہ وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ سنگِ مر مر کا بنا ہوا پکّا سچا پٹھان ہے اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف پاکستان میں احتساب کا نعرہ لے کر آئی جس میں وہ باقاعدہ اصولی طور پر فیل ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی سے مال مقدمہ سامنے نہیں لا سکے بلکہ احتساب کرتے کرتے کرپشن بدعنوانی جیسی لعنت نے ایسے پنجے گاڑھ لیے ہیں کہ احتساب ناممکن نظرآنے لگا ہے۔ جس معاشرے میں "چو ر سپاہی" مل جائیں وہ معاشرہ کیسے ترقی کر سکتا ہے۔   یہی وقت ہے جب ذمہ دار معتبر اداروں کو جو اللہ کے بعد پاکستان اور پاکستانی قوم کی آخری امید ہیں پاکستان کی بے چینی کو بغور دیکھنا چاہیے۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں نے اپنے لیڈران کی بے عزتی کا بدلہ "اٹھارویں ترمیم " کے ذریعے لے لیا ہے اور وفاق کو کمزو کر دیا گیا ہے۔  میرا سوال منی بجٹ پاس کروانے والوں سے بھی ہے کہ تمھیں کبھی خیال نہیں آیا کہ پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹنے والی ترمیم کو ختم کیا جا ئے۔ اب بھی وقت ہے اقتدار کی بجائے پاکستان کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں ۔
اِک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اِک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن