پنجاب کی تقسیم تحریک انصاف کے لئے مشکل مرحلہ
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
پنجاب کی تقسیم، پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکل مرحلہ ہے۔ صوبہ جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور ہو چکی ہے اور اب ایسی ہی ایک قرارداد سینٹ میں بھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب سینٹ میں موجود جنوبی پنجاب کے نمائندے اس قرارداد کی مخالفت کریں یا اسے روکنے کے لیے کام کریں گے، کیا حکومت جنوبی پنجاب کے لوگوں سے کیا گیا وعدہ نبھا پائے گی۔ تحریک انصاف کا بحثیت جماعت اور جنوبی پنجاب کے سیٹینرز کا انفرادی حیثیت میں اصل امتحان شروع ہونے والا ہے۔ وسائل سے محروم جنوبی پنجاب کے لوگوں کو ہر دور میں وعدوں پر ہی ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ کیا پی ٹی آئی بھی اپنا وقت ایسے ہی گذارے گی۔ صوبوں کے بڑھتے ہوئے مسائل اور انتظامی خامیوں کے بعد اب صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ حکمران ذاتی مفادات کی خاطر دہائیوں سے مخصوص علاقوں کو وسائل سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ صرف اقتدار کی خاطر ہر مرتبہ انتخابات سے پہلے وعدے کیے جاتے ہیں ان مخصوص علاقوں کے سیاستدان ذاتی فائدے کی خاطر حکومت کا حصہ بنتے ہیں اور عوام کو بھول جاتے ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ڈویژنز کو صوبہ کا درجہ دیا جائے، عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاست دان ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں، جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کے وعدے اور وہاں کے لوگوں کو ان کا جائز حق دیں۔ آبادی میں بے پناہ اضافے کے بعد موجودہ حالات میں بڑے بڑے صوبوں کے ہوتے ہوئے شہریوں کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں رہا۔ ایسا نظام حکومت جہاں منتخب نمائندے ہر مرتبہ انتخابات کے موقع پر ہی حلقے میں نظر آئیں وہاں عام آدمی کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے موجودہ زمینی حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ صوبوں میں تقسیم کی جائے اور یہ سلسلہ صرف پنجاب کی حد تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ڈویژنز کی سطح پر ملک بھر میں یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح جمہوریت کے نعرے لگانے والے، جمہوری حق کے لیے آواز بلند کرنے والے سیاست دان اپنے ووٹرز کو ان کا حق دیتے ہیں یا نہیں، وسائل اور حقوق سے محروم کروڑوں لوگوں کی نظریں پارلیمنٹ پر ہیں۔