لاپتہ افراد کیس، ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا: اسلام آبادہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دائر درخواستوں میں جبری گمشدگیوں کے ہائیکورٹ میں زیر سماعت کیسز کی لسٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دے دی۔ صحافی و بلاگر مدثر نارو کے گمشدگی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے، گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے جو جبری گمشدگی میں نہیں آتے، اکثر لوگوں نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک کو چھوڑا۔ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا، کچھ لوگ کے پی کے حراستی مراکز میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی، چیف جسٹس نے کہاکہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسا بھی ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سر چوراہوں پر لٹکائے جاتے تھے، کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر بھی لوگ حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ حراستی مراکز سے متعلق ایک قانون بنا تھا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جبری گمشدگیوں کے کمشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے، دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھر رہی ہیں، کون یہ کر رہا ہے؟۔ حکومت اور وفاقی کابینہ جواب دہ ہے، کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہاکہ لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے۔، اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئی جی اسلام آباد سے اس متعلق رپورٹ منگوا لیں، عدالت نے کہا آپ اس کورٹ کو حل بتائیں، اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟، یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں، ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا، یہ ایسی بات ہے کہ ریاست کو ہل جانا چاہیے، ایسے واقعات سے نان سٹیٹ ایکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں، عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے، پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے خدشہ ہے کہیں یہ ان کی پالیسی ہی یہ رہی ہو، ان میں سے کسی نے لاپتہ افراد کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہو جائے تو یہ اچھا میسج جائے گا، جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی کی نشاندہی ہو جائے اور چیف ایگزیکٹو نہ ایکشن لیں تو وہ جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں منتخب کی بات کرتا ہوں، میں آخری تین منتخب وزرائے اعظم کی بات کرتا ہوں، ان وزرائے اعظم کی وہ پالیسی نہیں تھی جو کتاب والے صاحب کی تھی۔ عدالت نے کہاکہ 2016ء میں تو منتخب وزیر اعظم تھے پھر بچے کس نے اٹھائے، ان کے ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ میرے لیے کہنا آسان ہے کہ جس دور میں گمشدگیاں ہیں اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں لیکن میں ایسا نہیں کہوں گا۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ حراستی مرکز کا دورہ کرایا جائے تو کافی لاپتہ شہری بازیاب ہو سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسی بات نہیں، حراستی مرکز میں موجود تمام افراد کی شناخت اور لسٹ موجود ہے، حراستی مرکز میں موجود لوگوں کی ان کی فیملیز سے ملاقات بھی کرائی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہئے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے آئین کو دیکھتے ہوئے کسی پر ذمہ داری عائد کرنی ہے، چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی اپنی ذمہ داری ادار نہیں کر سکتا تو اسے عہدے سے ہٹ جانا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟، یہ عدالت، وکیل صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کر سکتا، آپ کو وفاقی حکومت کی جانب سے واضح پیغام دینے کے لیے مزید وقت دیں۔