رانا شمیم پر فرد جرم عائد : بعض باتیں مانتا ہوں کچھ نہیں ، سابق چیف جج جی بی
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کے بیان حلفی اور خبر کی اشاعت پر توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو کیس سے الگ کرنے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے رانا شمیم کی حد تک فردجرم عائد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ روسٹرم پر آجائیں، ہم چارج فریم کرتے ہیں۔ رانا شمیم نے استدعا کی کہ میرے وکیل کو آنے دیں، میں نے دو نئی درخواستیں دائر کردی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت پہلے چارج فریم کرے گی، پھر درخواستیں دیکھے گی۔ دوبارہ سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے، کیا اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی مسئلہ ہے، اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے، اس عدالت کا احترام کرتے ہوئے کیس کی کارروائی آگے چلانے دیں، یہ کس طرح کا بیانیہ ہے کہ اس عدالت ججز کمپرومائزڈ ہیں، اس عدالت کو ہی دیکھ کر نریٹو بنایا گیا ہے، ایک آئینی عدالت کے ساتھ بہت مذاق ہوگیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کئی بار سمجھایا مگر ان کو لگ رہا کہ انہوں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا، رانا شمیم نے بیان حلفی میں سنگین الزامات عائد کیے، ہمیں کچھ نہیں چھپانا، نہ چھپائیں گے، جولائی 2018ء سے آج تک بتائیں کہ کون سا حکم کسی کی ہدایت پر جاری ہوا؟۔ عدالت ایک لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آ کر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے، آپ کو احساس تک نہیں کہ زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے، جولائی 2018ء سے لے کر آج تک وہ آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟، ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ ہے، لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے فکس تھا جب سٹوری شائع کی گئی۔ اس عدالت نے بہت محنت سے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے، اخباری سٹوری کا ثاقب نثار یا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں۔ اس عدالت نے لوگوں کے اعتماد کی بھی حفاظت کرنی ہے، یہ عدالت کسی جج کو تحفظ نہیں دے رہی، اس عدالت کے ساتھ ایسا نہ کریں، باقی جس کے ساتھ جو کرنا ہے، ہمارا قصور ہے کہ ہم نے سبجوڈس رولز کی پروا نہیں کی۔ یہ ہمارے لیے سیکھنے کا عمل ہے، آپ چاہتے ہیں کہ میں ریسرچ پیپر لکھوں، آزادی اظہار رائے نہیں ہو گی تو آزاد عدلیہ بھی نہیں ہو گی، یہ چیزیں پہلے بھی ہوئیں اور ہوتی رہیں گی، مگر اس میں قصور ہمارا بھی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ میری مودبانہ درخواست ہو گی کہ رانا شمیم پر چارج فریم اور باقیوں کی حد تک چارج مؤخر کیا جائے۔ رانا شمیم نے کہا کہ بیان حلفی سے متعلق کسی کو بتائے بغیر 10 نومبر 2021ء کو سربمہر کیا اور انگلینڈ میں نواسے کے حوالے کیا، 30 اکتوبر 2021 کو امریکہ میں سمپوزیم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی جس کا موضوع پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا، 6 نومبر کو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی تو پاکستان کی ڈائریکٹ فلائیٹ نہ مل سکی اس لیے برطانیہ کی ٹرانزٹ فلائیٹ کے ذریعے واپس آیا، بھائی کی وفات سے قبل بھی چار ماہ کے دوران خاندان میں چار قریبی رشتہ داروں کی اموات ہوئیں اور اس وجہ سے افسردہ تھا، خاندان کے قریبی افراد کی موت کے بعد اپنے علم میں موجود واقعہ جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا، یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتائی کیونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس وقت خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ پاکستان کی حدود سے باہر پیش آیا اور اس واقعہ کے ایک ماہ بعد عہدے سے بھی ریٹائر ہو گیا، بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو خود سنا، یہ حقائق زندگی بھر بیان نہ کرنے کا ارادہ تھا مگر مرحومہ اہلیہ سے کیا گیا وعدہ اور فیملی ممبرز کی اموات کے بعد حالات کے باعث حقائق کو بیان حلفی کی شکل میں ریکارڈ کیا، یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق کی تصدیق انکوائری کے ذریعے کی جائے، انصاف کے حصول کے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس کا جوابی حلف نامہ بھی انکوائری کے سامنے پیش کیا جائے اور جرح کا موقع دیا جائے، بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق غلط ثابت ہونے تک یہ کریمنل توہین کا کیس نہیں بنتا، اگر بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق درست ثابت ہو جائیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا جو کہ منصفانہ انکوائری سے ہی ممکن ہے، بیان حلفی کی تشہیر کا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے اسے خفیہ رکھا اور پاکستان سے باہر ریکارڈ کرایا، اس عدالت کے ججز کا احترام ہے جو آزاد ہیں اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کے بجائے حقائق جاننے کے لیے انکوائری شروع کی جائے۔ عدالت نے رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو الگ کرنے سے متعلق دونوں الگ الگ درخواستیں مسترد کردیں اور رانا شمیم پر فردجرم عائد کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ چارج فریم کو مانتے ہیں؟۔ جس پر رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رانا صاحب آپ ماشاء اللہ چیف جج رہ چکے ہیں، آپ نے بھی توہین عدالت کے کیسز سنے ہوں گے، رانا شمیم نے کہا کہ میں نے کبھی توہین عدالت کا کیس نہیں سنا، میں اس پر یقین نہیں رکھتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ چارج فریم کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ کو موقع ملے گا، آپ کا الزام اس کورٹ سے متعلق ہے۔ رانا شمیم نے کہا کہ میں تو آپ اور جسٹس عامر فاروق کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں، میں اور اٹارنی جنرل کے والد اکٹھے پریکٹس کرتے رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیوں پہلے دن سے کیوں میرے خلاف ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ کیا نوٹری پبلک کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی شروع کی؟، ہم آپ پر چارج فریم کر رہے ہیں، آپ فرد جرم سنیں، فرد جرم میں کہا گیا کہ بیان حلفی کو نوٹرائزڈ کرایا گیا جو میڈیا تک پہنچا، بیان حلفی 15نومبر کو شائع ہوا، آپ نے جواب میں کہا کہ بیان حلفی نوٹرائزڈ کرا کے سیل کیا اور نواسے کے حوالے کیا، کوریئر سروس سے بیان حلفی موصول ہوا، آپ نے کہا ہو سکتا ہے کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہو، آپ نے نوٹری پبلک اور صحافی کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی، آپ نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے کی کوشش کی، آپ نے اپنے کنڈکٹ سے زیر التوا کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی، آپ کو اوپن کورٹ میں تمام الزامات پڑھ کر سنا دیے گئے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟۔ اس موقع پر رانا شمیم نے کہا کہ پہلے آپ الزامات کی فرد جرم کی کاپی مجھے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ الزام تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟۔ رانا شمیم نے کہاکہ کچھ باتیں تسلیم کرتا ہوں اور کچھ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو تحریری طور پر جمع کرائیں۔ رانا شمیم نے کہا کہ میں اکیلا ہوں، مارچ میں ایک تاریخ دیں۔ عدالت نے کہا کہ آپ کو آنا پڑے گا، آپ کے خلاف چارج فریم ہوگیا۔ رانا شمیم نے کہا کہ میں جتنی عزت اس عدالت کی کرتا ہوں، شاید ہی کوئی اور کرتا ہو، میں بہت ڈسٹرب ہوں، 20 یا 25 فروری تک کا تاریخ دیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی اور کہاکہ اس معاملے کو عارضی طور پر نمٹاتے ہیں، اگر صحافیوں نے ایسا کچھ کیا تو چارج فریم کیا جائے گا۔ جج رانا شمیم نے کہا ہے کہ میرے وکیل ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں مجھے اکیلا دیکھ کر فرد جرم عائد کی گئی۔ جس صحافی نے خبر پبلش کی اس کو معاف کردیا گیا۔ جب تک بیان حلفی سامنے نا ہو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب ثاقب نثار کائونٹر ایفیڈیویٹ لائیں گے تب بات ہوگی۔ فرد جرم عائد ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ بیان حلفی سربمہر تھا معلوم نہیں کیسے پبلک ہوا۔ فرد جرم سے مراد کسی کو سزا دینا مقصود نہیں ہوتا۔