ایسے نہیں چلے گا
کہا جاتا ہے کہ ایک ریاست کے والی کے دل میں مور پالنے کا شوق پیدا ہوا اس نے تمام وزراء سے مور پکڑنے کی ترکیب پوچھی تو وزراء میں سے ایک وزیر نے کہا کہ میرے پاس مورپکڑنے کی ترکیب ہے جوکہ میرے دادا نے مجھے بتائی تھی وہ کیا ترکیب ہے والی نے پوچھا سنا ہے مور اندھا ہوجائے تو باآسانی پکڑا جاتا ہے اور مور کو اندھا کرنے کی کیا ترکیب ہے والی نے پوچھا جی اسکی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے ریاست کے والی نے فوراً حکم دیا کہ مور کی آنکھوں میں ڈالنے کیلئے پگھلا ہوا سیسہ منگوایا جائے لیکن سوال تو وہی رہاکہ مور کو کیسے پکڑا جائے اپوزیشن بھی اسی نکتے پر آکر تذبذب کا شکار ہے حکومت کو کیسے گرایا جائے اصل مدعا تو یہ ہے کہ معیشت وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہی ہے کورونا کا عفریت دندناتا پھر رہا ہے اپوزیشن اور حکومت ایک پلیٹ فارم پر کوئی مسئلے کا حل نکالیں حکومتیں گرانا بنانا تو مسائل کا حل نہیں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک سیاسی رہنما بڑھ چڑھ کر حکومت کو گھر بھیجنے کے اسباب بتارہے تھے ان سے سوال کیا گیا کہ آپکے خیال میں نئی حکومت یہ سب مسائل حل کرپائے گی تو انہوں نے کہا بہت وقت لگے گا کسی کام کو بگاڑنے میں اتنا ٹائم نہیں لگتا جتنا بگڑی ہوئی چیز کو سنوارنے میں لگتاہے وہ بھی اگر پرامن ماحول ملتا رہے عمران خان نے جس وقت حکومت سنبھالی معیشت زوال کا شکار ہوچکی تھی مسائل کی شرح وسائل سے زیادہ تھی سوال تو یہ ہے کہ کیا حکومت گرانے کے بعد نئی حکومت ان مسائل کے سامنے بندھ باندھ سکے گی معیشت کا زوال حکومت کی نااہلی ہے یا پچھلی حکومتوں کا تحفہ کیونکہ حکومت کا موقف ہے کہ وہ پچھلی حکومتوں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے کیا حکومت گرانے کے بعد اپوزیشن کے پاس کوئی بہتر ایجنڈا ہے اگر ہوتا تو بہت پہلے اسکا نفاذ ہوجاتا اور عمران خان کو ان مسائل کی گھمبیرتا کاسامنا نہ کرنا پڑتا پاکستان کو معاشی عدم استحکام کی طرف کون لایا کیا لانگ مارچ دھرنے ان مسائل کاحل ہیں جماعت اسلامی نے ایک سو ایک دھرنوں کا عندیہ بھی دے دیا کیا امن کوسبوتاژ کرانا مسائل کا حل ہے اپوزیشن کادعوی ہے کہ وہ حکومت کوگرا کر دکھائیں گے اگر پراپیگنڈا ہی مسائل کا حل ہے تو چارسالوں سے اپوزیشن اسی ایجنڈے پر قائم ہے لیکن حکومت کو ہلانا تو ایک طرف بلکہ خود پی ڈی ایم میں دراڑیں پڑ گئیں ماضی میں جتنے لوگ حکمران بن کر آئے ان کا خیال تھا مہنگائی اور غربت کے سومنات کے بت کو توڑ دینگے لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان کو اندازہ ہواکہ مسائل تو اتنے سادہ نہیں کہ جتنے نظر آتے ہیں عوام کے حصے میں صرف غربت اور مہنگائی آئی اپوزیشن کاخیال ہے کہ حکومت کی نااہلی کی ایک وجہ آئی ایم ایف کا کندھا استعمال کرناہے یہ کندھا تو ہرآنے والی حکومت نے استعمال کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ آئی ایم ایف کی پالیسیاں غربت میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بنیں اور عوام غربت کے چکر سے نکلنے کی بجائے مزید پھنستے چلے گئے۔ نوے کی دہائی میں معاشی مسائل قابو سے باہر ہو چکے تھے نجکاری ڈی ریگولیشن اور آزاد تجارت کے حوالے سے پیش رفت ہوئی اگر یہ پیش رفت80 کی دہائی میں ہوجاتی تو ہم دنیا بھر سے بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ ہی ملک پر قرضوں کا انبار ہوتا کہ اصل زر تو درکنار سود ادا کرنا بھی مسئلہ بن جاتا اس پر طرہ یہ کہ غریبی دور کرنا ہماری ترجیح نہیں رہا جنرل پرویز مشرف کاخیال تھا کہ انکی ٹیم محصولات کے نظام میں اصلاحات کے ذریعہ اس قدر وسائل پیدا کرلیگی کہ معیشت سنبھل جائے گی ٹیکسوں کے نظام کی اصلاح سے غربت ح جیسے مسئلہ سے نبرد آزما ہونا تو درکنار سرکاری محکموں کی اصلاحات کا پروگرام بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا معاشی حقائق ہماری نیک خواہشات کے تابع نہیں ہوتے موجودہ حکومت کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ گلے سڑے اور بوسیدہ نظام معیشت میں جتنی طبع آزمائی کی جائے کم ہے جب تک لوٹا ہوا مال واپس نہ لایاجائے اور مفادات کے حصول کیلئے پنجے گاڑنے والے مافیاز کے زور کو نہ توڑا جائے مہنگائی کا جو لاوا سات دہائیوں سے پک رہا تھا وہ شومئی قسمت عمران خان کے دور میں پھٹ پڑا ہم سیاسی مسائل جلسے جلوسوں حکومت گراؤ اور دھرنوں کی سیاست میں اسقدر الجھے ہوئے ہیں کہ کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی کسی بھی سسٹم کو لپیٹنا مسائل کاحل نہیں بلکہ سیاسی استحکام معاشی استحکام کی راہیں کھولے گا فوکویامہ اپنی کتاب دی ٹرسٹ میں لکھتا ہے کہ حکومت کے سربراہ کی حیثیت باپ کی سی ہوتی ہے جو تمام کنبے کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور تمام جماعتیں مسائل کے حل کیلئے متفقہ فارمولا پیش کرتی ہیں ایک کہاوت ہے کہ ایک راہگیر کہیں سے گزر رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک شخص جس درخت کی شاخ پر بیٹھاہوا تھا اسے ہی کاٹ رہا تھا راہگیر نے کہا بیوقوف گرجاؤگے اس شخص نے بات ان سنی کردی کچھ دیر میں وہ نیچے آگرا وہ شخص بھاگا بھاگا اسکے پاس گیا اور کہاکہ تمھیں کیسے اندازہ ہوا کہ میں بیوقوف ہوں راہگیر نے کہا کہ تمھاری پیشانی پر لکھا ہوا ہے ہمیں اس بات کااندازہ ہی نہیں کہ ہماری کوتاہی اور لغزشیں ہمارے زوال کی وہ کہانی ثبت کررہی ہیں کہ جس کا ہم نے حل نہ ڈھونڈا تو حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔