• news
  • image

سیّد افسر ساجد کے تذکرے اور تجزیے

ممتاز نقاد، باوقار شاعر او ر مستند کالم نگار جناب سیّد افسر ساجد کی نویں کتاب ’’تذکرے اور تجزیے‘‘ میرے ہاتھ میں ہے۔ اس سے قبل سیّد افسر ساجد کی آٹھ کُتب ’’Perceptions‘‘، ’’ترسیل‘‘، ’’وجود اِک واہمہ ہے‘‘، Appraisals، Profiles and Dialogues، Evaluations، ’’حیرت‘‘اور ’’کچھ خطوط میرے نام‘‘ منظرِ عام پر آکر صاحبانِ علم و دانش سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ سیّد افسر ساجد اُردو اور انگریزی کے معروف ادیب و نقاد ہیں۔ ملک اور بیرون ملک ادبی حلقوں میں انکی ایک منفرد شناخت ہے۔ ادبی تقاریب کے انعقاد میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ سیّد صاحب کے ’’تذکرے اور تجزیئے‘‘ تقریباً ستاون عناوین پر مشتمل ہے۔ اپنے اس مجموعے کے بارے میں سیّد صاحب ’’پیش لفظ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ : ’’مجموعہ زیرِ نظر، میرے ان مضامین اور تحریروں پر مشتمل ہے جو گاہے بگاہے میں نے ادبی کتب پر تبصروں اور ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت و فن کے جائزوں کی شکل میں قلم بند کیے۔ ان میں سے کچھ کو میں نے ادبی تقریبات میں پڑھا بھی۔ (اِن میں تقاضائے بشری کے تحت چند نثری و شعری تحریریں شامل کی گئی ہیں جو میرے اپنے بارے میں ہیں)۔‘‘کتاب کا دیباچہ ممتاز ادیب، شاعر، اُستاد و نقاد ڈاکٹر سعادت سعید نے ’’ایک منکسرالمزاج حق گو‘‘کے عنوان سے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جو کہ کتاب کے آٹھ صفحات پرمحیط ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید سیّد افسر ساجد کی خاکہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’سیّد افسر ساجد کے لکھے ہوئے خاکے انکی شخصیت فہمی کے متنوع زاویوں کو سامنے لاتے نظر آتے ہیں۔ مولانا جعفر قاسمی کو وہ دُرست طور پر پیکر فقر و دانش قرار دیتے ہیں۔ نعیم چودھری کے خاکے میں انکی شخصیت کے عام و خاص پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ خواجہ عبداللہ کی یاد میں اور راجہ تصدق حسین سے فیض پانے کے معاملے میں اُنھوں نے دل کھول کر محبت نویسی کی ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید نے سیّد صاحب کی تنقیدی بصیرتوں، بطور شاعر اور بطور نقاد، فکشن نگاری الغرض اُنکی تمام ادبی جہات کا بڑا جامع و حقیقت پسندانہ جائزہ لیا ہے۔ سیّد افسر ساجد کا عملی کیریئر شعبۂ تعلیم و تدریس اور سول سروس پر محیط ہے۔ پنجاب کی صوبائی سول سروس میں ۶۲ سال کامیابی سے گذارنے کے بعد بطور ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہوئے۔ شعبۂ تعلیم میں اُن کا تجربہ قریباً 82 سال پر مشتمل ہے۔ ابتدائی دس سالوں میں انہوں نے فیصل آباد اور نوشہرہ (کے پی کے) کے گورنمنٹ کالجوں میں انگریزی زبان و ادب کی تدریس کی۔ گذشتہ اٹھارہ سالوں سے وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی، انگریزی ادب اور قانون کے شعبوں میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فیصل آباد ہر سال مقابلۂ کتب منعقد کرواتا ہے۔ امسال سیّد افسر ساجد کے شعری مجموعے ’’حیرت‘‘ کو تخلیقی ادب کیٹیگری میں دوسرے انعام سے نوازا گیا ہے۔ سیّد صاحب دو قومی نظریئے کے زبردست حامی ہیں۔ ’’تذکرے اور تجزیئے‘‘ میں شامل مضمون ’’پاکستان اور دو قومی نظریہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد تھیں ، ہندو اور مسلمان… بات دراصل یہ ہے کہ تحریک پاکستان کا پسِ منظر اِسی دو قومی نظریئے سے عبارت ہے۔ مسلمانانِ ہند نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں ان گنت قربانیاںدے کر اپنے لیے ایک علیحدہ وطن اسی نظریئے کے پسِ منظر میں حاصل کیا۔ پاکستان ہمارا قومی تشخص ہے لیکن زمانۂ حال میں ہم اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔‘‘
موجودہ پاکستان کی حالتِ زار دیکھ کر سیّد افسر ساجد کا دل بھی ایک سچّے پاکستانی کی طرح کُڑھتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں : ’’یہ امر انتہائی افسوس کا باعث ہے کہ آج کا پاکستان علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم محمد علی جناح کی کاوش بے مثل کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ ہم اپنی منزل کو بُھول گئے ہیں۔ قائد اعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد ہمیں ایسی سیاسی قیادت میسر نہیں آئی جو ملک کو استحکام اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرتی‘‘ ۔ کتاب میں شامل مضامین کے بارے ڈاکٹر سعادت سعید لکھتے ہیں : ’’سیّد افسر ساجد کی تنقیدی محنت عامہ وخاصہ نے انہیں فکری عجز و انکسار کا وہ وسیلہ عطا کیا ہے کہ جس کا اظہار ان کے قارئین کو زندگی کی منافع بخش قدروں کے رُوبرو لے آیا ہے۔ ان کا ہر مضمون اس امر کا غماز ہے کہ وہ مُلاکے سامنے طبیب نہیں بنتے اور نہ ہی طبیب کے سامنے مُلّا۔ ان دونوں کے سامنے وہ اپنے صدق و صفا کے اظہار سے اپنے مرتبے کو بلند کرتے ہیں۔ تاہم یہ مرتبہ انہیں غرورو تکبر میں مبتلا نہیں کرتا۔ ان کا روّیہ اس صوفی کے رویے کی صورت سامنے آتا ہے جو باآواز بلند نعرہ لگاتا ہے ’’میں ناہیں سب توں‘‘۔ سیّد صاحب بطور شاعر بھی ایک بلند مقام پر فائز ہیں۔
لا سکے لب پہ نہ شکوہ کوئی
دل پہ سو بار پڑے‘ پڑتے رہے
تم بھی ساجد رہے تنہا تنہا
اپنی وحشت سے ڈرے‘ ڈرتے رہے

epaper

ای پیپر-دی نیشن