• news
  • image

ملنے کب آئوگے

معلوم نہیں زندگی کے تمام امتحان دیتے ہوئے یہ اطمینان کہ ابو باہر بیٹھے ہیں ۔کتنا اہم تھا میرے لئے ۔لیکن آج جب میں ابو کے ناتواں ہاتھوں کو دیکھتی ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان ہاتھوں کی طاقت کہاں چھپی ہے کہ اب بھی کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے ابو کی طرف ضرور دیکھتی ہوں۔اور مجھے ابو کے ہاتھوں میں وہی پانی کی بوتل اور اہم نوٹس نظر آتے ہیں۔مجھے ان کی آنکھوں میں وہی دعا نظر آتی ہے ۔ میں انکی آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھ لیتی ہوں۔پھر میرے ہاتھ میں نظر نہ آنے والا قلم خود بخود ہی اک داستاں لکھ ڈالتا ہے ۔
میں اس شام خفا تھی۔امی نے وٹس ایپ پر چھوٹو کی پکچر دیکھ کر بھی رپلائی نہیں کیا تھا۔گھر میں ہلچل برپا تھی کیونکہ چھوٹو ابھی سو کر اٹھا تھا ۔ہر چیز اوپر نیچے تھی جب ابو کا فون آیا۔بمشکل فون چھوٹو کی نظروں سے چھپا کر میں نے اٹننڈ کیا۔ابو پورے دن کا حال احوال پوچھتے رہے۔فون رکھتے ہوئے کہنے لگے۔آپ کی امی تو مکالمے میں مصروف ہیں۔میں نے قدرے نخوت سے پوچھا ۔"کس سے "۔ابو کہنے لگے ۔آپ نے چھوٹو کی جو تصویر بھیجی ہے اس سے ۔آپ کی امی باقاعدہ گفتگو کر رہی ہیں۔ کیسے ہو۔گول گول آنکھیں گھما کر کسے دیکھ رہے ہو۔ملنے کب آؤ گے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ہم نانا نانی یا دادا دادی کو دور سے تصویریں بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ہنستے ہوئے ۔شرارت کرتے ہوئے۔کھیلتے ہوئے ۔لیکن وہ تو ملنا چاہتے ہیں ۔۔قہقہے کی آواز سننا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں شرارت ان کے ساتھ کی جائے ۔بال ان کے ساتھ کھیلا جائے ۔فون بند ہو گیا۔اور میں نے لاہور جانے کی گاڑی بک کرا لی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن