جج تعیناتی سب سے مشکل ، ٹیسٹ تمام ججز کیلئے کیوں نہیں : جسٹس فائز
لاہور(اپنے نامہ نگار سے+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب سول جج اور ایڈیشنل سیشن جج کیلئے ٹیسٹ ہو سکتا ہے تو دوسروں کیلئے کیوں نہیں ہو سکتا، جج تعینات کرنا سب سے مشکل کام ہے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے پنجاب بار کونسل کے زیر اہتمام قانون کی حکمرانی کے عنوان سے تقریب میں کیا، انھوں نے کہا بلوچستان میں پہلی خاتون جج کو میں نے نامزد کیا تھا، میں اس وقت جوڈیشل کمشن کا ممبر نہیں تھا، پتہ کیوں بلوچستان ہائیکورٹ کی جج کو سپریم کیوں نہیں لیجایا گیا، میری یہاں اتنی تعریفیں کی گئیں مجھے اب شرمندگی ہو رہی ہے، یہاں حافظ آباد بار کی صدر خاتون بھی بیٹھی ہیں یہ خوش آئند ہے، مجھے نہیں پتا تھا پنجاب بار میں اتنا زیادہ کام ہو رہا ہے، ہم بلوچستان میں ہڑتال ہونے ہی نہیں دیتے تھے ہم منتخب عہدیداران سے بات کرتے تھے، آپ نے مجھے سٹار بنا دیا میں سٹار نہیں ہوں میں قانون آئین کے مطابق فیصلے کرنے کی کوشش کرتا ہوں، فیس ویلیو وکیل کی نہیں کیس کی ہونی چاہیئے، دہشت گرد کے پاس کوئی دلائل نہیں ہوتے، بندوق کے زور پربات کرنے والے کمزور ترین افراد ہوتے ہیں، بطور جج فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہی ذمہ داری ہے، بات چیت کا راستہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے، میرے سے دوستی رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ نقصان ہوسکتا ہے،ہوسکتا ہے میں اعظم نذیر تارڑ اور فرحان شہزاد کا کیس مسترد کردوں، قائد اعظم نے مسلم لیگ بنائی، ان کا ایک ویژن تھا انہوں نے کوئی جنگ نہیں لڑی بلکہ بات چیت سے ملک حاصل کیا، میرے خلاف ڈیتھ تھریٹ چلا، یوٹیوب پر ویڈیو چلائی گئی، میری بیوی کو یہ بات بری لگی اور وہ تھانے چلے گئی لیکن پانچ دن تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، اس کے بعد الیکٹرانک کرائم کے تحت پرچہ درج کیا گیا، اگر دو پہیوں کی بات ہوتی ہے تو دو پہیوں کی برابری بھی ہونی چاہیئے، میں نے 27 سال وکالت کی 12 سال سے جج ہوں میں نے وکالت زیادہ کی، آئین کہتا ہے ریاست پاکستان میں جمہوریت ، سماجی انصاف کا اطلاق ہو گا، ٹیکنالوجی کے استعمال سے بعض وکلاء گھبراتے ہیں، شائد وکلاء کیسوں کی تعداد کم ہونے کے شبہ سے گھبراتے ہیں، میں نے آج جو بولا وہ لکھ کر بولا کل کو اپ اس کو میرے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں، ایک بار بلوچستان کے وکلاء نے ہڑتال کی تو میں نے تمام کیسوں میں ریلیف دیدیا تو وکلاء نے کہا کہ آپ ہماری وکالت کے پیچھے پڑ گئے ہیں، عدالت میں چہرہ نہیں کیس دیکھا جانا چاہیئے، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد نے کہا کہ پنجاب بار کونسل ملک کی سب سے بڑی بار کونسل اور اس کے رجسٹرڈ وکلاء ایک لاکھ پچیس ہزار ہیں، پنجاب بار کونسل نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوشش کی، صدر سپریم کورٹ بار چوہدری احسن بھون نے کہا کہ پنجاب بار کونسل کو انصاف کی علامت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مدعو کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، جب کوئی جج آزادی سے فیصلہ دیتا ہے تو اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا، اگر کوئی میری غلطی کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کا شکر گزار ہونا چاہیئے، ہمیں اختلاف رائے کو سننے کا حوصلہ اور عادی ہونا چاہیئے، دوسرے ججوں کو بھی قاضی صاحب کی طرح ملنسار ہونا چاہیئے، گھٹن کے ماحول سے نکلنا چاہیے سوسائٹی کیلئے نقصان دہ ہے، طاہر نصراللہ وڑائچ نے قاضی فائز کیخلاف ریفرنس کیلئے صرف پاور آف اٹارنی پر دستخط نہ کرکے پانچ کروڑ ٹھکرایا ان کو سیلیوٹ کرتا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیے۔ مجھے کسی اور نے بھی یہی کہا تھا، میں نے کہا جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیے، جج کو اللہ تعالیٰ اور آئین کا ڈر ہونا چاہیے، ڈرپوک جج قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ عوام کی شکایت ہے کہ فیصلے برسوں بعد ہوتے ہیں، عوام کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فیصلے پر اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ مقدمہ بازی کی بڑی وجہ قانون سے ناواقفیت ہے، شہری پاکستان میں قوانین معلوم کرنا چاہے تو اسے ایک جگہ اکھٹا نہیں ملتا، ایک زمانے میں ہر برس کے وفاقی قوانین شائع کیے جاتے تھے، اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے، گزٹ آف پاکستان تو اب بھی شائع ہوتے ہیں مگر ان میں قانون الگ کرنے اور موضوعات میں مرتب کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ یہی نظام صوبائی سطح پر بھی نافذ تھا مگر اب نظر نہیں آتا، عدالت عظمی نے اس غفلت کی نشاندہی کی تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا۔ پاکستان میںجتنے قانون بنتے ہیں وہ انگریزی میں ہوتے ہیں سمجھ نہیں آیا کہ وفاقی پارلیمان ہونا صوبائی اسمبلیاں قانونی اسی وقت اردو میں شائع کیوں نہیں ہو سکتا۔ اردومیں قانون بنانے کی ضرورت ہے قانون سازی میں اردو زبان میںبھی تیز کام کی ضرورت ہے اور پاکستان کوڈ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔