کورونا کی ہلاکت خیزیاں
کورونا کی پانچویں لہر نے جس تیزی کے ساتھ انسانی زندگیوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے اس نے متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ شہریوں میں بھی خوف کی نئی لہر کو جنم دے دیا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ اس وباء کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں اس سے ہونے والی اموات کی تعداد 29 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ صرف ایک دن میں 23 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ سرکاری ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق پورے ملک میں مثبت کیسز کی شرح 13 فیصد ہو گئی ہے۔کراچی میں 48،لاہور میں 18 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ چوبیس گھنٹوں میں 7678 کیسز سامنے آئے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری اور ڈسٹرکٹ عدالتوں کے 15 جج بھی متاثرین میں شامل ہیں اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کی ضلع کچہری کے 58 اہلکار بھی وباء کا شکار ہو گئے۔ جس کے بعد متعلقہ عدالتیں بند کر دی گئی ہیں۔ این سی او سی نے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سکول ایک ہفتے کے لیے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ضلعی صحت اور تعلیم کے حکام صوبائی انتظامیہ کی مشاورت سے بندش کا تعین کریں گے۔ این سی او سی نے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ 12 سال سے زائد عمر کے طلبہ کی ویکسی نیشن کے لیے خصوصی مہم چلائی جائے۔ کورونا کی وبا نے گزشتہ چند روز کے اندر جس تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع کر دیا ہے۔ اس سے تشویش تو فطری بات ہے ہی لیکن اس سے حکومتی اور متعلقہ انتظامیہ کی طرف سے بھی ٹھوس اقدامات کرنے میں تساہل اور غیر سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔ عوام الناس کی طرف سے اس ضمن میں زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جا رہیں۔ ان کی طرف سے لاپروائی اور غفلت بھی اس پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس جانب پوری سنجیدگی اور فکر مندی کے ساتھ توجہ دی جائے۔ مختلف دفاتر، عدالتوں اور پبلک مقامات پر ڈِس انفیکشن سپرے کرایا جائے۔ تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر کورونا ٹیسٹنگ کی جائے اور جن ایس او پیز کو تحریری شکل دے کر دفاتر میں سرکولیٹ کیا گیا ہے۔ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس وباء کی مزید ہلاکت خیزی سے بچا جا سکے۔