آرمی چیف کا دہشت گردی کا مکمل خاتمہ یقینی بنانے کا عزم
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ یقینی بنائیں گے۔ شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ روز پشاور کورہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا جہاں انہیں تازہ ترین سکیورٹی صورتحال اور پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کے عمل سمیت کے پی کے میں ضم ہونیوالے نئے اضلاع میں ترقیاتی کاموں سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک فوج ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ یقینی بنائے گی۔ انہوں نے بہادر قبائلیوں سمیت پاک فوج‘ ایف سی‘ لیویز‘ خاصہ دار اور پولیس کے جوانوں اور افسران کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ امن کے حصول کیلئے بہایا گیا شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائیگا، پاکستان میں مکمل امن لائیں گے۔ انہوں نے سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی پر سکیورٹی فورسز کی کوششوں کو بھی سراہا۔ قبل ازیں آرمی چیف کے پشاور پہنچنے پر کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ان کا استقبال کیا۔
بے شک عساکر پاکستان ہی ملک کے دفاع کے ساتھ ساتھ اسکی سلامتی کو درپیش تمام اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے عہدہ برأ ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں اور اس کیلئے ہمہ وقت چوکس اور تیار بھی ہیں۔ اسی طرح ملک میں امن و امان اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ایک اہم ریاستی ستون کی حیثیت سے ہماری سکیورٹی فورسز پر ہی عائد ہوتی ہے اور وہ اپنی عسکری قیادتوں کی کمان میں اپنی یہ ذمہ داریاں بحسن و خوبی سرانجام دے رہی ہیں۔ ہمیں چونکہ شروع دن سے ہی بھارت کی صورت میں ایک مکار دشمن سے پالا پڑا ہے جبکہ مسلم برادرہڈ کے ہمارے بے پایاں جذبے کے باوجود ہمیں افغان سرحد کی جانب سے بھی کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور کابل انتظامیہ زیادہ تر ہمارے دشمن بھارت کی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں اسکی آلۂ کار ہی بنی رہی ہے اس لئے ہمیں اپنی سلامتی سے متعلق چیلنجز چاروں جانب سے ہمہ وقت درپیش رہتے ہیں۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ان چیلنجوں کا احساس و ادراک ہونے کے ناطے ہماری سول اور عسکری قیادتیں آج مکمل یکجہت ہیں جو ملک کی سلامتی کو گزند تک نہ پہنچنے دینے اور ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے مکمل پاک کرنے کے عزم پر کاربند ہیں اس لئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ملک کا امن و سلامتی عساکر پاکستان کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہے جسے کمزور کرنے کی دشمن کی کوئی سازش نہ پہلے کامیاب ہو پائی ہے نہ آئندہ ہو پائے گی۔ تاہم اس وقت طالبان حکومت کے دور میں افغانستان میں بڑھتا انسانی بحران ہماری سلامتی اور خودمختاری کیلئے بھی نئے چیلنجوں کا باعث بن رہا ہے جس میں ہمیں زیادہ محتاط ہونے اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر دنیا کا اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے امریکی نائن الیون کے بعد مشرف کے جرنیلی اقتدار میں ہماری قومی خارجہ پالیسیوں کی سمت درست کرنے کے بجائے خراب کردی گئی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی نیٹو فورسز کی افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کاکردار قبول کرکے پاکستان نے خود کو قربان گاہ بنالیا۔ ہمارے اس کردار کے ردعمل میں ہی یہاں طالبان انتہاء پسندوں اور دوسرے دہشت گردوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کرکے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہماری سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ہمیں اربوں ڈالر کے مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جس امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے اتنے زیادہ نقصانات اٹھائے اسے ہمارے اس بے لوث کردار پر بھی ہمیشہ بدگمانی رہی اور وہ ہم سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے کرتے ہوئے خود بھی ڈرون حملوں اور دوسرے زمینی اور فضائی حملوں کے ذریعے ہماری دھرتی اجاڑتا اور ہمارے شہریوں کا خون بہاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ اس نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیکر پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی سازشوں کو بھی تقویت پہنچائی۔ اسکے باوجود امریکہ کو افغانستان سے محفوظ واپسی کیلئے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی ضرورت محسوس ہوئی تو پاکستان نے خطے میں قیام امن کی خاطر یہ کردار بھی بسروچشم قبول کیا مگر امریکہ نے عجلت میں افغانستان سے انخلاء کرتے وقت پاکستان کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہ سمجھا اور اس پورے خطے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
پاکستان نے اس صورتحال کے باوجود خطے کے بہترین مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے افغان امن عمل کی تکمیل کا کردار برقرار رکھا اور افغانستان پر غلبہ حاصل کرنیوالے طالبان کی حکومت کو اقوام عالم میں تسلیم کرانے کی کوششوں کا آغاز کیا مگر طالبان حکومت کی جانب سے بھی بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ سردمہری والا رویہ اختیار کیا گیا۔ طالبان حکومت نے اگرچہ کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں اپنی دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنے کی ہدایت کی مگر جس طرح ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ترک کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی نئی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جو لاہور دہشت گردی تک جا پھیلا ہے‘ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت ہی نہیں‘ طالبان حکومت کی آشیرباد بھی حاصل ہے جبکہ افغان طالبان نے پاکستان افغان سرحد پر نصب کی گئی باڑ گرا کر بھی اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر منفی ریمارکس ادا کرکے بھی پاکستان کے ساتھ خیرخواہی والا پیغام نہیں دیا۔
اگرچہ پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے جس کے بارے میں آرمی چیف کو گزشتہ روز انکے دورۂ پشاور کے موقع پر مفصل بریفنگ دی گئی ہے‘ اسکے باوجود ہمیں دہشت گردی کی شروع ہونیوالی نئی لہر کے تناظر میں بھارت اور افغانستان سے متصل پاکستان کی سرحدوں پر مکمل چوکس و مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دشمن تو یہی چاہے گا کہ وہ ہمارے سکیورٹی لیپس سے فائدہ اٹھا کر کسی نہ کسی طرح ہماری سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس لئے آج ہمیں قومی اتحاد و یکجہتی کی زیادہ ضرورت ہے۔