اتوار ، 19 جمادی الثانی 1443ھ، 23 جنوری 2022ء
ملزموں کے لیکچر سننے اسمبلی نہیں آتے‘ مراد سعید کا اسد قیصر کو خط
بڑے کمال کی بات کی ہے وزیر مواصلات ایسی ہی اگربالغ نظری ہمارے اور دو چار ارکان پارلیمنٹ اور وزراء میں پیدا ہو جائے تو یقین کریں پورے پارلیمان کا ماحول اور ملک کا نظام بہتری کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ ایک وقت تھا یہی موصوف موجودہ حکمرانوں کے حکومت سنبھالنے کے سے قبل عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے تھے ایسے ایسے خواب دکھاتے تھے کہ عام ووٹر ان کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ آج چار سال بعد وہی ووٹر کل کے اندھیروں سے نکل کر دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مل مل کر ان خوابوں اور سبز باغوں کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے کہ کہاں گئے وہ اربوں ڈالر جو آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے تھے۔ کہاں گئیں وہ دودھ و شہد کی نہریں۔ گھر‘ روزگار اور قیمتیں کم ہونے کے دعوے۔ بے شک مراد سعید آپ ملزموں کے لیکچر سننے اسمبلی میں نہ آئیں۔ ویسے بھی کبھی کبھار ہی آتے ہیں مگر یہ ملزم تو اسمبلی میں دونوں طرف براجمان نظر آتے ہیں۔ تو پھر ایک طرف والے سارے ملزم سادھو اور دوسری طرف والے شیطان کیسے ہوگئے اور جو لوگ اسمبلی میں آکر جھوٹے وعدے اور دعوے کرتے ہیں‘ ان کو کس قطار میں شمار کیا جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف انہیں ایک دوسرے کی بات سننا ہوگی۔ اپنی اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ عوام کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی۔ ورنہ دونوں طرف کی آنیاں جانیاں توعوام عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
پی ایس ایل ٹرافی کی رونمائی، کرونا بڑھا تو میچز ملتوی ہونگے: پی سی بی
ایک تو کرونا اس وقت عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کے بد اثرات کھیلوں کی دنیا پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا نے ٹینس کے سپر سٹار نوواک کو اپنے ہاں عالمی سطح کے آسٹریلین ومبلڈن ٹینس مقابلے میں صرف اس لئے شرکت کی اجازت نہیں دی کہ انہوں نے کرونا ویکسین نہیں لگائی تھی۔ اس پر کافی لے دے ہوئی۔ معاملہ عدالت تک گیا‘ مگر وہاںبھی جیت قانون کی ہوئی اور عالمی نمبر ون سپرسٹار نوواک جوکووچ کو بنا کھیلے واپس ڈی پورٹ کر دیا تھا۔ اسی طرح سیاسی چپقلش کے ساتھ کرونا کے اثرات چائنا موسم سرما اولمپکس پر بھی پڑتے نظر آر ہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اومی کرون کی تازہ لہر شدت اختیار کر چکی ہے۔ کئی شہروں میں‘ ملکوں میں لاک ڈاؤن اور حفاظتی اقدامات سختی سے نافذ ہیں۔ ان حالات میں اب پاکستان میں پی ایس ایل کرکٹ مقابلوں کا انعقاد بھی مشکوک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پی سی بی والے کہتے ہیں کہ پوری کوشش ہے کہ یہ ایونٹ مقررہ وقت پر ہوں۔ تمام میچوں کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔ غیر ملکی کھلاڑی بھی آرہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کرونا بڑھا تو میچ ملتوی ہوں گے۔ یعنی ساری تیاری اور کھیلوں کے مقابلے کرونا کے بڑھنے یا گھٹنے سے مشروط ہیں۔ تو کیا پھر اسے ہم ناں ہی سمجھیں۔ کہنے والے تو کہہ رہے ہیں لاہور بم دھماکہ بھی اس لیے کیا گیا ہے کہ غیر ملکی کھلاڑی ایک مرتبہ پھر پاکستان کو غیر محفوظ قرار دے کر یہاں آنے سے انکار کر دیں۔ حالات اور دھماکے کی ٹائمنگ دیکھیں تو لگتا یہ بھی سچ ہی ہے۔ آگے سچ کیا ہے وہ اوپر والا جانتا ہے۔
٭٭٭٭
ہفتہ وار مہنگائی میں معمولی کمی‘ 29 اشیاء مہنگی‘ 7 سستی ہو گئیں: ادارہ شماریات
سب سے پہلے تو ادارہ شماریات والے مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے نہایت باریک بینی سے ہفتہ وار مہنگائی کے اتار چڑھائو کا جائزہ لیا۔ مہنگائی میں 0.06 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اتنی باریک اور معمولی کمی کا عام آدمی مطالعہ کر ہی نہیں سکتا نہ عام آنکھ سے یہ خفیف کمی مشاہدے میں آسکتی ہے۔ یہ بہت نازک کام ہے۔ حکومت کو اس اونٹ کے منہ میں زیرے سے کم ریت کے ذرے جتنی کمی مبارک ہو ورنہ ہر طرف سے مہنگائی میں آئے روز اضافہ کی رپورٹوں اور خبروں نے عوام کے ساتھ حکمرانوں کے بھی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بس یہ الگ بات ہے مہنگائی میں اضافے کی شرح 3.05 فیصد یا 5.08 فیصد تک اوپر جاتی ہے مگر کمی 0.06 جیسی قلیل مقدار میں ہوتی ہے حالانکہ یہ عوام کے نزدیک نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کھانے کا تیل اتنے میں ہی ملے گا۔ آٹا کی پرانی قیمت برقرارہے گی۔ چینی بھی ایک پیسہ کم نہیں ہوئی۔ دال‘ چاول‘ گوشت‘ چکن کے وہی ظالمانہ ریٹ برقرار ہیں تو 0.06 فیصد کمی عوام کہاں اور کیسے تلاش کریں۔ اس کیلئے عوام کو خوردبین خریدنا ہوگی تاکہ یہ ریت کے ذرے برابر کمی بھی چھپ کر نہ رہے اور سامنے آئے۔ اس طرح کم از کم وہ دکاندار سے بحث تو کر سکیں گے کہ بھائی مہنگائی میں اتنی کمی آئی ہے توریٹ بھی کم کر دو مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ اس کمی کے باوجود 241 اشیاء مہنگی ہوئی ہیں اور 7 اشیاء سستی ہوئی ہیں تو اس کا مطلب صاف یہی ہے کہ مہنگائی کی لہر جسے سونامی بھی کہا جا سکتا ہے۔ پوری طاقت کے ساتھ برقرار ہے۔ باقی اندازے اور دعوے سب کہنے سننے کی حد تک ہیں۔
٭٭٭٭
کسانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے پیپلزپارٹی کا اوکاڑہ‘ لاڑکانہ میں ٹرالی مارچ
ویسے یہ ہے بڑی حیرت کی بات جس صوبے میں سب سے زیادہ کسانوں کا استحصال ہوتا ہے۔ جہاں سب سے زیادہ ابتر صورتحال کسانوں کی ہے۔ اس صوبے کی حکمران جماعت اپنے صوبے سے صرف نظر کرتے ہوئے پنجاب کے کسانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ٹرالی مارچ کر رہی ہے۔ جی ہاں یہ چراغ تلے اندھیرے والی بات گزشتہ روز لاڑکانہ اور اوکاڑہ میں پیپلزپارٹی کی طرف سے کسان ٹرالی مارچ کو دیکھ کر سچ ثابت ہوتی نظر آئی۔ اس وقت پنجاب میں کھاد کی قلت کی وجہ سے کسان پریشان ہیں۔ گرچہ حکومتی ترجمانوں کے نزدیک اس ابتلا کے دور میں بھی اگر کسان مہنگے داموں کھاد خرید رہے ہیں تو ان کی خوشحالی کا ثبوت ہے۔اس افلاطونی دعوے کے برعکس حالات واقعی تکلیف دہ ہیں کہ ہمیں اناج مہیا کرنے کے لئے دن رات محنت کرنے والے کسان مسائل کاشکار ہیں۔ اب ان کے غم میں پیپلزپارٹی نے ٹرالی مارچ کیا ۔ سندھ میں وزیراعلیٰ سندھ نے بیل گاڑی پر بیٹھ کر مارچ کی قیادت کی اور کہا کہ سندھ میں حکومت خوشحالی لائی ہے۔پہلے میرے گاؤں میں ایک موٹر سائیکل تھی۔ اب ایک سو ہیں۔ واہ کیا خوب لاجک ہے یہی مشرف کہتا تھا۔ یہی موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ گاڑیوں موٹر سائیکلوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ بتا رہا ہے ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ اب عوام اور کسان اس پر ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتاہے کی پھبتی کس سکتے ہیں۔ جس کا انہیں حق حاصل ہے۔