چوتھا وزیراعظم، مریم نواز اور ای او بی آئی!!!!
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کس کس کو وزیراعظم بنایا یہ اب راز نہیں رہا گورنر صاحب اس خبر کی تردید یا وضاحت تو کر رہے ہیں لیکن تردید یا وضاحت پر کون توجہ دیتا ہے اب تو لوگ کچھ اور ہی سوال کر رہے ہوں گے بلکہ یار لوگوں میں تو وہ "بابا وزیراعظم" کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ چودھری صاحب سے چوتھے وزیراعظم کا نام پوچھ لوں لیکن وہ بہت پکے ہیں کچھ بتا نہیں رہے۔ میں نے ان سے فون پر پوچھا پھر ملنے چلا گیا دوبارہ پوچھا پھر ایک عشائیے پر ملاقات ہوئی وہاں پوچھا لیکن گورنر پنجاب نے بالکل نہیں بتایا کہ چوتھا خوش قسمت وہ کون ہے جسے وزیراعظم بنوا رہے ہیں بہرحال اب ان سے بذریعہ سائرن سوال ہے کہ اب تو بتا دیں اگر کچھ اور نہیں تو اپنا نام ہی لیں دیں ہو سکتا ہے وقت بدل جائے لوگ ان کے نام کے ساتھ گورنر پنجاب کے بجائے وزیراعظم پاکستان لکھنا شروع کر دیں۔ ویسے وہ سدا بہار گورنر ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے نکالے جانے پر زیادہ خطرناک ہونے کی بات کی ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، کبھی وہ میاں نواز شریف کی نقلیں اتارا کرتے تھے، مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا اب وقت بدل چکا ہے اب عمران خان نکالے جانے کی باتیں کرتے ہوئے دکھائی دے رہے۔ عمران خان جاتے ہیں مریم نواز شریف نے اس پر ردعمل دیا ہے۔ مریم بی بی کو اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے کم از کم تاریخ پر ضرور نظر دوڑانی چاہیے کیونکہ ان کے والد گرامی میاں نواز شریف اس وقت بھی ملک سے باہر ہیں۔ لندن بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی سال ملک سے بہت گذار کر آئے پھر وہ یہاں ہوتے ہوئے بھی یہی سوال کرتے رہے کہ " مجھے کیوں نکالا" یہ تو روایت بن چکی ہے ہر جانے والا یہی پوچھتا ہے حالانکہ اسے علم ہوتا ہے کہ کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی سوال یہی ہوتا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان وہی الفاظ دہرا رہے ہیں تو اس میں خوش ہونے والی بات نہیں ہے ویسے میں نون لیگ کے پسندیدہ اوورسیز پاکستانیوں کے سربراہ لگے ہیں۔ اب بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں اور بالخصوص نون لیگ کے ووٹرز کے لیے ضرور آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
سینئر سیاستدان سید صمصام بخاری کے بھائی کا انتقال ہوا ہے ان کی طرف تعزیت کے لیے جانا تھا لیکن کراچی میں کچھ مصروفیات کی وجہ سے شاہ صاحب کے پاس حاضری نہیں ہو سکی۔ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطائ فرمائے اور ان کے بھائی کے درجات بلند فرمائے۔
اعجاز الحق کرونا کا شکار ہوئے ہیں ان کی صحتیابی کے لیے بھی آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مرض سے محفوظ فرمائے اور ملک و قوم کو اس بچاتے ہوئے متاثرین کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ ہمیں دعاؤں کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کو نہیں بھولنا چاہیے۔
چودھری ریاض مسعود نے بزرگ شہریوں کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ گذشتہ روز آپ نے نوائے وقت میں ان کا کالم پڑھا ہو گا میں اسے ایک مرتبہ پھر حکومت وقت کے سامنے رکھ رہا ہوں امید ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے گی۔ چودھری ریاض مسعود لکھتے ہیں" ہم نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لیتے ہیں اور ہر روز ’’ریاست مدینہ‘‘ کی گردان بھی تسلسل سے کرتے ہیں لیکن عملاً بزرگوں کو معیشت اور معاشرہ کے اوپر بوجھ قرار دیتے ہیں۔ وہ بزرگ جو سرکاری، پرائیویٹ یا رجسٹرڈ صنعتی اداروں میںکام نہیں کرتے ہماری ریاست مدینہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھے انہیں خیراتی کارڈ احساس پروگرام لنگر خانوں پناہ گاہوں اور ماہانہ امداد کے سیاسی کھیل سے دور رکھے اور ان بزرگوں کی عزت نفس کا ہر صورت میں خیال رکھے۔ انہیں کسی قسم کی امداد دیتے وقت انہیں فوٹو سیشن سے ہر صورت میں دور رکھے۔
اس وقت ریاست مدینہ میں سرکاری، نیم سرکاری محکموں، خودمختار اداروں، کارپوریشنز اور رجسٹرڈ صنعتی اداروںکے ریٹائر ہونے والے بزرگ مالی، معاشی اور صحت کے مسائل کا بری طرح شکار ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ان کی پنشن میں کئی کئی سال اضافہ نہیں کیا جاتا۔
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ مالی سال 2021-2022ء کے دوران ملک میں مہنگائی میں 40 فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا جبکہ ادویات کی قیمتوں میں 40 سے 200 فیصد تک ریکارڈ اضافہ ہوا لیکن ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والی حکومت نے ان کی پنشن میں محض دس فیصد کا اضافہ کر کے ’’حاتم طائی کی سخاوت‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت صنعتی اداروں سے ریٹائر ہونے والے بزرگ پنشنرز صرف 8500 ماہوار پنشن لے رہے ہیں۔ جس میں گذشتہ کئی سالوں سے ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ جو کم ازکم 21000 ماہوار ہونی چاہیے۔
بھلا ہو وزیراعظم کے دوست اور سابق مشیر زلفی بخاری کا کہ جنھوں نے ’’سب کی مخالفت‘‘ کے باوجود ای او بی آئی پنشن بڑھا کر 6500 ماہوار سے8500 روپے ماہوار کر دی تھی۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کا سب سے امیر ادارہ ای او بی آئی ہی ہے جس میں اربوں روپے کے گھپلے ہو چکے ہیں اور بدعنوان افراد پر نیب شکنجہ بھی کس چکی ہے۔
دوسری طرف تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حکومت سیاسی اقرباپروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرکشش پوسٹوں پر اپنے منظور نظر ریٹائرڈ بزرگ افراد کو بھاری معاوضے پر لگا دیتی ہے جو کہ سراسر قومی خزانے کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور منی بجٹ کی وجہ سے پاکستان کے تمام پنشنروں کی پنشن میںکم از کم 50 فیصد کا فوری اضافہ کیا جائے اس کے علاوہ حاضر سروس ملازمین کی طرح تمام پنشنروں کو یکم مارچ 2021ء سے ڈسپیریٹی الاونس بھی دیا جائے جو کہ بزرگ پنشنرز کا جائز حق ہے۔ بزرگ پنشنروں کے حوالے سے یہ بات دکھ اور افسوس کی ہے۔ تمام قومی بنکوں نے 2000 سے اپنے تمام پنشنروں کی پنشن منجمد کر دی تھی جس میں گذشتہ بیس سالوں کے دوران ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بنکوں کے بوڑھے بزرگ پنشنرز 5000 سے 8000 روپے ماہانہ کی پنشن پر گزارا کر رہے ہیں۔ اس زیادتی اور ناانصافی کے خاتمہ کیلئے وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کو سخت ترین احکامات جاری کرنا ہونگے تا کہ بنک کے پنشنروں کی منجمند شدہ پنشن بقایا جات سمیت بحال ہو سکے۔
اسی طرح قومی ائرلائن پی آئی اے اور زرعی بنک کے پنشنروں کی پنشن میں گذشتہ کئی سالوں سے اضافہ نہیں ہوا۔ اس زیادتی کا بھی فوری طور پر ازالہ کیا جائے کیونکہ ریاست مدینہ کا عملاً تصور بھی یہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، پاکستان کے تمام بزرگوں کی فلاح و بہبود، ان کے مالی اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع پالیسی بنائے ریاست مدینہ کے صرف نعرے ہی نہ لگائے بلکہ بزرگوں کے لیے عملی طور پربھی کچھ کر کے دکھائے حکومت یہ بات یاد رکھے کہ بلدیاتی اور عام انتخابات کا موسم آرہا ہے اور ملک میں 60 سال سے زائد عمر کے بزرگ ووٹروں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے یہ قیمتی ووٹ حکومت کو آسانی سے مل سکتے ہیں اگر وہ واقعی بوڑھے بزرگ شہریوں کی خدمت اور ان کو درپیش مسائل کو ایک مشن سمجھ کر حل کرے۔