’قائد اعظم اور افواجِ پاکستان ‘
’قائد اعظمؒ اور افواج پاکستان‘ یہ کتاب جبار مرزا کی تحریر اور تالیف ہے ، اس کتاب میں مصنف نے نہایت بے باکی اور دلیری سے ان خون آشام واقعات کو بیان کرنے کی جستجو کی ہے جو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کو قدم قدم پر پیش آئے۔ جبار مرزا ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دریائے بیاس اور ستلج ویسے ہی خشک نہیں ہوئے انہوں نے پاکستان کے لیے ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کا لہو پیا تھا ۔راوی کا پانی آج بھی سرخ ہے وہ گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان خون کے دریا سے گزر کر ملا تھا ۔ انگریزوں اور ہندوستانی لیڈر کی ملی بھگت سے یہ طے کیاگیا تھا کہ پاکستان کو بغیر فوج کے رکھا جائے ۔پھر جب جی چاہے حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا جائے لیکن قائداعظم اس سازش کو بھانپ گئے انہوں نے فوج کے بغیر پاکستان قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ قائد اعظم نے حکومت برطانیہ سے مدد طلب کی۔ چنانچہ رضاکار برطانوی افسروں میں سے 355 انگریز افسر حکومت پاکستان کے سپرد کر دیئے گئے ۔قائداعظم ان برطانوی افسروں سے اپنے نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کی تربیت چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اپنے آفیسر اور جے سی اوز ٹریننگ سینٹروں میں بھیج دیئے گئے تو ہجرت کرنے وا لوں کی حفاظت اور پاکستان میں ان کی آبادکاری میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔جناب قیوم نظامی کی ایک کتاب میں یہ واقعہ درج ہے کہ ان دنوں پاکستانی افواج کے ایک افسر، کرنل اکبر خان( جو بعد میں جنرل بنے) نے قائد اعظم سے گلہ بھی کیا تھا کہ ہم دیسی لوگوں کی صلاحیتوں کو آزمانے کی بجائے آپ نے غیر ملکی آفیسر کا انتخاب کیوں کیا؟ اس پر قائداعظم نے یہ کہہ کر اکبر خان کو خاموش کرا دیا تھا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے۔ آپ کو اس پر رائے دینے کی ضرورت نہیں ۔بہرطور تقسیم کے اس لمحے انتشار اور ہنگامہ آرائیوں کے اس دور میں پاکستان کی مختصر اور منقسم فوج کو جہاں طرح طرح کی مشکلات درپیش تھیں وہیں پر انہیں کئی قسم کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں ۔ملک میں امن و امان قائم رکھنا، فوج کی پہلی ذمہ داری قرار پائی اور شہری نظم و نسق میں سول حکومت کا ہاتھ بٹانا بھی فوج کے فرائض میں شامل تھا ۔اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ لاکھوں مہاجرین کا تھا جنہیں بھارتی علاقوں سے بحفاظت نکال کر پاکستان لانا اور پاکستان سے ہندو اور سکھوں کو بھارت پہنچانا بھی شامل تھا ۔پھر این ڈبلیو ایف یعنی مغربی سرحد پر نگاہ رکھنا اور سب سے اہم بات پاکستان کے نام پر وجود میں آنے والی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی متعین کردہ سرحدوں کی حفاظت کرنا فوج کی انتہائی اہم ذمہ داریوں میں شامل تھا ۔فوج کے افسروں اور جوانوں پر اتنا کام آ پڑا تھا کہ انہیں کئی کئی ہفتوں تک لگاتار رات دن ڈیوٹی انجام دینی پڑتی ۔ایک دفعہ امرتسر اور واہگہ کے درمیان مہاجرین کے پیدل قافلوں کی حفاظت کے لیے کافی عرصے سے 5/13فرنٹیئر فورس رائفلز کی دو کمپنیاں ڈیوٹی دے رہی تھیں ،ان کے بارے میں اطلاعات ملیں کہ مسلسل اعصاب شکن ڈیوٹیاں انجام دے کر یونٹ کے اکثر جوان بیمار ہو چکے ہیں ۔انہیں پورا راشن بھی نہیں مل رہا اور جو کچھ ان کے پاس تھا وہ مہاجرین میں انسانی ہمدردی کی بناپر تقسیم کر دیا کرتے تھے ۔مہاجرین کے متعدی امراض جن میں ہیضہ ملیریا وغیرہ بھی فوجی جوانوں کو لگ گئے تھے ۔اس وقت کے لیفٹیننٹ کرنل موسی خان( جو بعد میں آرمی چیف کے عہدے پر فائز بھی ہوئے )وہ ایک فوجی یونٹ کے پاس پہنچے جو ایک لاکھ مہاجرین کے 32میل لمبے قافلے کو بحفاظت پاکستان لارہے تھے ۔موسی خان نے ایریا کمانڈر کا پیغام دینے کے بعد کہا میں غیر سرکاری طور پر اطلاع دے رہا ہوں کہ امرتسر سے اس طرف مہاجرین کا ایک قافلہ سفر کے لیے تیار ہے جن کو بحفاظت لانے کے لیے میرے پاس مزید فوجی نہیں ہیں ۔انہیں تحفظ فراہم کرنا بھی ضروری ہے اب فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے کہ لاہور چل کر آپ نے آرام کرنا ہے یا پاکستان کے لیے ہجرت کرنے والے ان لٹے پٹے لوگوں کو بحفاظت پاکستان پہنچانا ہے۔ فوج کے تھکے ماندے ، بھوکے پیاسے اور بیمار جوان موسی خان کے الفاظ سنتے ہی اپنے تمام دکھ ،درد بھول کر واپس امرتسر مہاجرین کاقافلہ لینے چلے گئے ۔ 224 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ’قائد اعظم اور افواج پاکستان‘ کے حوالے سے ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے جن واقعات کو پڑھنے کے بعد سخت سے سخت دل انسان کے بھی آنسو نکل آتے ہیں ۔اس کتاب کا انتساب آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں اور ملک مقبول احمد کے نام مشترکہ طور پر کیا گیا ہے ۔