• news
  • image

ذکر پھر جنوبی پنجاب صوبے کا

جوں جوں لیکشن کا موسم قریب آنے لگتا ہے کچھ موسمی نعرے بھی زیادہ زورو شور سے سنائی دینے لگتے ہیں جیسے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ بھی آج کل پھر سے سامنے آ رہا ہے بلکہ اب تو یہ موضوعtalk of the town ماضی میں اقتدارمیں رہنے والی حکومتوں نے بھی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے الیکشن مہم چلائے رکھی گذشتہ حکومت کے دور میں جنوبی پنجاب کے الگ سیکرٹریٹ کے لیے کمیٹی بھی بنائی گئی جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں ڈالے گئے۔اس ڈول سے جنوبی پنجاب میں الگ سیکرٹریٹ کا قیام تو عمل میں آ گیا  لیکن الگ صوبے کا معاملہ ابھی تک کٹھائی میں ہے اس علیحدہ سیکرٹریٹ کو بھی ایک دفعہ یک جنبش قلم یعنی ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ کالعدم قرار دے دیا گیا  تھا پھر راتوں رات اس ضلع کے اراکین اسمبلی کی بھاگ دوڑ سے اسے پھر سے بحال کر دیا گیا ہے۔
گورنر پنجاب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس خطہ کے اہم سیاست دانوں اور حکومت میں موجود لوگوں کے گھر لاہور، اسلام آباد میں ہیں اور ان کے بچے بھی تعلیم کہیں اور حاصل کرتے ہیں اس لیے علیحدہ صوبے کیلئے اس خطے کے حکومتی افراد ہی اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر رہے گورنر پنجاب کی اس بات سے یقینا جنوبی پنجاب کے سیاست دان اور حکمران اتفاق نہیں کریں گے تاہم پی پی کے دور میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے بل ضرور پاس ہو گیا  جس کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعظم  سید یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ پھر سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ تحریک انصاف نے بھی اپنے منشور میں الگ سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے اب ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رانا محمود الحسن نے الگ صوبہ بنانے کے لیے بل پیش کر دیا ہے۔ پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس کی حمایت کا اعلان بھی کیا گیا ہے اس کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے کہ اس سے کئی نئے صوبوں کے قیام کا پنڈورا بکس کھل سکتا ہے۔
جبکہ ہزارہ کے الگ صوبہ بنانے کا بھی معاملہ سامنے آیا ہے۔ لسانی بنیادوں پر الگ صوبے بنانا کسی بھی صورت ملکی اور قومی مفاد میں نہیں تاہم انتظامی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ صوبے بنانے کی حکمت عملی سے زیادہ لوگ اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ بہاولپور میں بھی الگ صوبہ بنانے کی آوازیں سامنے آتی رہتی ہیں سردست مختلف سرائیکی اضلاع کو شامل کر کے الگ صوبہ بنانے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا اور اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق بھی ہیں اب اگر حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتیں بھی الگ صوبے کے قیام میں ساتھ دیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اسے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی۔رانا محمود الحسن سینیٹر بننے سے پہلے رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں انہوں نے سینیٹ میں بل پیش کرکے جو تقریر کی تھی اسے بھی خاصا سراہا جا رہا ہے اس حوالے سے جب راقم نے انہیں فون پر اس حوالے سے مبارک باد دی تو انہوں نے الگ صوبہ کے قیام کیلئے خاصی مستقل مزاجی اور اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔
سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین ظہور احمد دھریجہ بھی سرائیکستان کے نام سے الگ صوبہ بنانے کیلئے ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ اگرچہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ثاقب ظفر نے بھی سیکرٹریٹ کو فعال کرنے اور عوام کے مسائل  سننے کیلئے سیکرٹری صاحبان کو پابند تو کیا ہے لیکن جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو مزید فعال ہونے اور یہاں کے لوگوں کے مسائل فوری طور پر حل کروانے کیلئے ابھی مزید وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔
سابق وزیراعظم گیلانی بھی اس حوالے سے خاصے پرعزم ہیں جبکہ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کسی ایک نکتے پر ایک جیسا موقف اختیار کئے ہوئے ہیں یقینا اس سرد خانے میں پڑے ہوئے اہم مسئلے کو سینیٹ کے ایوان میں لانے کا سہرا سینیٹر رانا محمود الحسن کے سر پر باندھاجا رہا ہے لیکن اگر موجودہ حکومت جنوبی پنجاب کے صوبہ کا بل پاس ہونے کے بعد دیگر قانونی اور انتظامی مراحل میں مستعدی اور پھرتی کا مظاہرہ کرے گی تو یہ اس کے کریڈیٹ میں ہی آئے گا لیکن اگر حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے نمبروں کی گیم کا شکار ہوں گی اور اسے آنے والے الیکشن کے نعرے تک محدود رکھیں گی تو پھر جنوبی پنجاب اور اس خطے کی عوام یہی کہتی ہی سنائی دے گی کہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے

epaper

ای پیپر-دی نیشن