سانحۂ مری
گزشتہ ہفتے مری کی برف پوش اور حسین وادی نے موت کا رقص دیکھا۔ کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ مری کی پر فضا آب وہوا اور دلکش نظاروں کی سیر کیلئے جانے والوںمیں سے دو درجن کے قریب بڑے اور بچے موت کی وادی میں چلے جائیںگے۔ مری جس کا فاصلہ دارالحکومت اسلام آباد سے محض 60کلومیٹر ہے ایک مشہور صحت افزاء پہاڑی مقام ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی اور غیرملکی سیاح گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں سیر کیلئے جاتے ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ آنے والے سیاحوںکی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوچکاہے جبکہ محل وقوع کی وجہ سے کوشش کے باوجود ٹریفک کا نظام اس طرح ٹھیک نہیں ہوسکا جیسے اس طرح کی مصروف جگہ پر ہونا چاہیے۔ اس سال بھی موسم میں اچانک سردی کی شدت میں اضافے اور بالخصوص برف باری کا نظارہ کرنے کیلئے لاکھوںکی تعداد میں لوگوں نے مری کا رخ کیا جس کو وزیراطلاعات نے حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے فاتحانہ انداز میں کہاکہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیوںکا مری جانا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ معاشی طور پر خوشحال ہورہے ہیں۔
ٓؓ یہاںپرسوچئے کہ ان ایک لاکھ سے زائد گاڑیوںمیں سوار لاکھوں لوگوں نے کہیں رہنا بھی ہے اور ان گاڑیوں نے سڑکوں پر چلنا بھی ہے اور پارک بھی ہونا ہے لہٰذا ایسے انتظامات موجود ہیں کہ نہیں جوکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹ سکیں۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، بدترین ٹریفک جام اورموسم کی شدت کے باعث لوگ گاڑیوںمیں پھنس گئے جس کے نتیجے میں دو درجن کے قریب لوگ ٹھٹھرکر زندگی کی بازی ہار گئے۔
اس سانحے کا اگر تقابلی جائزہ لیاجائے تو بہت سے عوامل اور وجوہات سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے ایسا ہواکہ بالخصوص انتظامی غفلت سرفہرست ہے مری کو جانے اور آنے والے راستے محدود ہیں جن کو بہت آسانی سے کنٹرول کیاجاسکتاہے۔ وہاں کی سہولیات اور زمینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹریفک کو کنٹرول کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا۔ اس سے قبل بھی اچانک موسم کی تبدیلی کی وجہ سے مری میں بے پناہ رش ہونے پر ضلعی اورصوبائی حکومتوں نے بروقت انتظامی اقدامات کی بدولت صورتحال کو کنٹرول میں رکھا۔ اس ساری صورتحال میں این ڈی ایم اے کا کردار بہت اہم تھا جوکہ بدقسمتی سے یہ ادارہ ادا نہیں کرسکا۔ یہ ادارہ بنایا ہی اسی طرح کی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کیلئے تھا مگر پیشگی اطلاع کے باوجود موثر انتظامات نہیں کئے گئے جس وجہ سے قیمتی جانی نقصان ہوا۔ کسی بھی انتظامی ناکامی کے بعد ذمہ داروں کا تعین سب سے ضروری عمل ہوتاہے تاکہ غفلت برتنے والوںکو سزا مل سکے اور آئندہ اس طرح کے واقعات کا سدباب کیاجاسکے۔ اس واقع میں ایک تو انتظامی عہدیدار ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے، دوسرے تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس نے ابھی تک اپنی رپورٹ جمع نہیں کرائی مگر بہتر یہ ہوتاکہ ایک جوڈیشل کمیشن بنایاجاتا کہ کسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر منصفانہ تحقیقات ہوسکتیں۔ انتظامیہ کے سربراہ کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے سے متاثرہ خاندان اور عام عوام کو کسی طرح تسلی دلائی جاسکتی ہے اور عوامی جذبات بھی قابو میں رہتے ہیں۔ پیشگی اطلاع اور بعدازاں کافی وقت گزرجانے کے باوجود بروقت امدادی اور حفاظتی اقدامات کا نہ ہونا ایک مجرمانہ فعل ہے جس پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی انتہائی ضروری ہے۔ اگردیکھاجائے تو واقعے کی ذمہ داری متاثرین پرڈالی جاسکتی ہے کیونکہ لوگوں کو جانے سے پہلے موسم کی صورتحال دیکھ لینا چاہیے تھی۔ وہاں پر کاروبار کرنے والے لوگوںکا مجموعی ظالمانہ رویہ بھی عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچاتاہے،قیمتوںمیں اضافہ کوئی حکومتی عہدیداروں کے کہنے پر نہیں ہوا تھا وہاں کی انتظامیہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں ہونے دیا۔
مری کا سانحہ کسی صورت بھی بھلایا نہیں جاسکتا اور حکومت کو پوری ذمہ داری لیتے ہوئے ایسے فوری اقدامات کرنے چاہئیں کہ آئندہ اس طرح کے حادثات نہ ہوں اور کوئی قدرتی آفت آجائے توپھر فوری طور پر اس سے موثر طریقے سے نمٹاجاسکے۔ اس سلسلے میں ذمہ داروں کا تعین اور تادیبی کارروائی سب سے ضروری ہے ۔ بروقت اور موثر اقدامات سے نہ صرف اس طرح کے واقعات کی روک تھام میںمدد ملے گی بلکہ سیاحت کے فروغ میں بھی کامیابی ہوسکتی ہے جس سے ملکی معیشت کو بہت فائدہ ہوگا۔