نور مقدم قتل کیس: چاقو پر ظاہر جعفر کی انگلیوں کے نشان نہ کوئی عینی شاہد : تفتیشی افسر
اسلام آباد (وقائع نگار) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں زیر سماعت نور مقدم قتل کیس میں تفتیشی افسر کے بیان پر وکلا صفائی کی جرح جاری رہی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین، سجاد احمد بھٹی، پراسیکیوٹر رانا حسن عباس، مقدمہ کے تفتیشی آفیسر انسپکٹر عبدالستار اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ تفتیشی افسر عبدالستار پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے جرح کی جس کے دوران تفتیشی افسر نے کہا کہ محمد، کانسٹیبل سکندر حیات، زبیر مظہر اے ایس آئی، کانسٹیبل عابد لطیف اور اعتزاز کانسٹیبل ایس ایچ او وویمن لیڈی کانسٹیبل اقصی رانی جائے وقوعہ پر پہنچے، اے ایس آئی زبیر مظہر پہلے پہنچا تھا۔ پولیس ڈائری میں جو میں نے اپنے ساتھ جانے کا لکھا وہ غلط لکھا، مدعی شوکت مقدم اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہلے سے موجود تھے، ڈیتھ سرٹیفکیٹ پولی کلینک سے حاصل کیا تھا اس پر وقت موت 12 بج کر 10 منٹ لکھا ہے، ایف سیون گھر سے لاش 20 جولائی کو مردہ خانہ کے لیے پونے بارہ بجے بھجوا دی تھی، پہلا ریمانڈ ظاہر جعفر کا 21 جولائی کو لیا، کسی بھی برآمد چیز کا ذکر نہیں کیا، جج نے دوبارہ 23 جولائی کو پیش کرنے کا کہا، نقشہ موقع پر کہیں بھی ظاہر ذاکر جعفر کی موجودگی نہیں دکھائی نہ ہی بیسمنٹ دکھائی ہے، دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور دیگر ملزمان کو کمرہ عدالت میں پیش کردیا گیا اور عدالت نے ملزمان کی حاضری لگائی۔ ملزم کمرہ عدالت میں غنودگی کی حالت میں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ تفتیشی افسر نے دوران جرح مزید کہا کہ مقتولہ نور مقدم کی موجودگی کی تصدیق کیلئے ڈی وی آر کا فوٹو گریمیٹک ٹیسٹ نہیں کروایا، گرفتاری کے وقت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی پینٹ کو خون نہیں لگا ہوا تھا، چاقو پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے فنگر پرنٹس نہیں آئے، ہمسایوں اور سامنے کسی چوکیدار کا بیان نہیں لکھا، گھر کے اردگرد جو کیمرے لگے انکی ریکارڈنگ نہیں لی، کوئی بھی عینی شاہد گواہ نہیں آیا فرانزک کے علاوہ۔ وکیل ذوالقرنین سکندر نے تفتیشی پر جرح مکمل کر لی۔ اسد جمال ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں ابھی جرح نہیں کروں گا اکرم قریشی پہلے کرلیں، عدالت نے سماعت کل بدھ تک کیلئے ملتوی کردی۔