حکومت عام آدمی کو بھول جائے تو سینکڑوں ترجمان بھی فائدہ نہیں دے سکتے
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
حکومتی ترجمان دل بہلانے کے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کوئی بھی حکومت ترجمانوں کے ذریعے عوامی مسائل حل کر سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اچھے ترجمان حکومتی موقف بہتر انداز میں پیش کر کے توجہ تقسیم کر سکتے ہیں لیکن اگر حکومت عام آدمی کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتی رہے، حکومت عام آدمی کو بھول جائے اور ترجمانوں کی تقرریاں کرتی رہے تو درجنوں کے بجائے سینکڑوں ترجمانوں کی خدمات بھی حاصل کر لیں تو فائدہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنے ترجمانوں پر بہت انحصار کرتی ہے۔ پی ٹی آئی نے جہاں بنیادی مسائل کو نظر انداز کیا ہے وہیں اس حقیقت سے بھی منہ موڑا ہے کہ ہر دوسرا شہری حکومت کا ترجمان ہوتا ہے اگر عام آدمی کی زندگی کو آسان بنایا جائے عام آدمی کے لیے زندگی کو پرکشش بنایا جائے۔ لوگوں کی زندگی کو آسان بنانا انہیں کرپشن سے دور کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے لیکن جہاں دو وقت کی روٹی نہ مل رہی ہو وہاں آپ کیسے کسی کو غلط کاموں سے روک سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خلاف نعرے لگاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ حکومت اس تاثر کو دور کرنے کے لیے ترجمانوں سے امید لگائے بیٹھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہدایات جاری کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کی کرپشن کو سامنے لایا جائے، لوگوں کو بتایا جائے کہ ماضی کے حکمران کیسے قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان اگر آج بھی آٹا، چینی، داپیں، ادویات، سبزیاں، پھل اور گوشت سستا کر دیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کریں، بجلی سستی کر دیں تو ہر دوسرا شخص حکومتی ترجمان بنا نظر آئے گا لیکن اس کے لیے اربوں روپے درست سمت میں خرچ کرنے اور عام آدمی کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف شاہد خاقان عباسی کو احساس ہو چکا ہے کہ تحریک عدم اعتماد بچوں کا کھیل نہیں یہی وجہ ہے کہ نون لیگ اس معاملے میں جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی۔ فی الحال دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے لانگ مارچ پر توجہ دیے ہوئے ہیں دیکھنا یہ ہے لانگ مارچ پورا کون کرتا ہے۔