کشمیر میں بھارتی مظالم، مغرب جان بوجھ کر خاموش:عمران
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مغرب نے سنکیانگ پر ایغور کے ساتھ چین کے رویے پر تنقید کی جو زمینی حقائق کے خلاف ہے لیکن کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر سب نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، پاکستان اور چین کے 70 سال پرانے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں، وقت کے ساتھ دونوں ملکوں کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے۔ وفد کے ہمراہ آئندہ ہفتے اپنے دورہ چین کا منتظر ہوں، چینی میڈیا کو انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ ہر مشکل وقت میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ قراقرم ہائی وے پاکستان اور چین کی دوستی کی عمدہ مثال ہے۔ انہوں نے کہا سی پیک بھی دونوں ملکوں کو مزید قریب لایا، وزیر اعظم نے کہا دورہ چین میں پہلے اولمپکس ہوں گے جس میں شرکت کروں گا۔ عمران خان نے کہا چین کے ساتھ مل کر سکیٹنگ کے کھیل پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں سکیٹنگ کے لئے موزوں علاقے ہیں۔ پاکستان میں سکیئنگ کے کھیل پر توجہ دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہمارا مقصد اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔ معاشی شرح نمو میں اضافے کے ساتھ اپنے عوام پر خرچ کر کے ان کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا، اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں زراعت اور صنعت پر توجہ دی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا انسانی حقوق کے حوالے سے دوہرا معیار ہے۔ ایک طرف سنکیانگ کی تو بات کرتے ہیں لیکن کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے بارے میں کہا افغانستان بیرونی طاقتوں کے میدان جنگ بننے کی وجہ سے بدامنی کا شکار رہا ۔ اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو وہاں پر پھر افراتفری اور انتشار ہو گا، افغانستان کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے چینی نئے سال کے موقع پر چینی عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا چین نے جس طرح میگا شہر بنائے ان کے تجربات سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان میں بھی شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں، اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے چین کے تجربات سے استفادہ چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ چین میں ایغور کے ساتھ ہونے برتاؤ پر مغرب کی جانب سے چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ہم نے اپنے سفیر معین الحق کو وہاں بھیجا، انہوں نے معلومات حاصل کی تو پتا چلا کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہے۔ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے، جہاں 90 لاکھ لوگوں کو بھارت نے کھلی جیل کی طرح قیدی بنایا ہوا ہے۔ عالمی برادری دونوں معاملات پر دوہرا معیار اپنا رہی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان 40 سال سے جنگ کا شکار تھا لیکن اب جب یہاں سے بین الاقوامی افواج کا انخلا ہوچکا ہے تو عالمی برادری کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چاہے طالبان حکومت آپ کو پسند ہے یا نہیں لیکن 4 کروڑ افغانیوں کے لیے ہمیں ان کی مدد کرنی پڑے گی، ورنہ افغانستان دوبارہ جنگ کے دہانے پر آجائے گا۔ انہون نے کہا کہ وہ دورہ چین پر پہلا اولمپکس دیکھیں گے، چین کے لوگ کرکٹ نہیں کھیلتے لیکن بطور کھلاڑی چین میں اولمپکس دیکھنا میرے لیے بہت دلچسپ ہوگا۔ وزیر اعظم نے کرونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد حالات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ عالمی وبا کے باعث تمام شعبوں کے ساتھ کھیل بھی متاثر ہوئے ہیں۔ چین میں کھیلوں کی سرگرمیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ چین میں جہاں ایک طرف معیشت کی ترقی ہوئی ہے وہیں گزشتہ ایک دو سالوں میں ہم نے اس کی کھیلوں میں موجودگی بھی دیکھی ہے، اس سے قبل چین کھیلوں میں کبھی اتنا آگے نہیں تھا اور یہ قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پیشرفت سے واضح ہوتا ہے کہ چین میں کھیلوں اور فٹنس کی طرف بھی توجہ مبذول کی جارہی ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں اسکیئنگ کے لیے بہترین مقامات موجود ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہم گلگت بلتستان میں اسکیئنگ پر توجہ دیں، چین میں سرمائی کھیلوں کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے، گلگت بلتستان میں اسکیئنگ کے مواقع سے چین سے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ جمہوری منصوبہ بندی سے متعلق چینی صحافی کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ چین نے 35 سے 40 سال میں اپنے ملک کو غربت سے نکالا ہے، یہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور یہی اقدام چین کے حوالے سے ساری دنیا کو متاثر کرتا ہے میرا اہم مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے، جب میں چین گیا تو میں نے غربت ختم کرنے کا طریقہ جاننے کی کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان میں چین کے ترقیاتی ماڈل کی تقلید کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے چین نے ترقی میں وسیع حصہ شامل کیا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ چین نے ایسی ترقی کی کہ اس کے ساتھ تمام آبادی کو بھی ترقی ملی، وہاں باقی دنیا کی طرح نہیں ہوا جس میں امیر امیر تر ہوتے ہیں اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں، اور غریبوں اور امیروں کے درمیان خلا بڑھتا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے دوران بھی غریب مزید غریب ہوئے اور امیر مزید امیر تر ہوئے تو چین ان تمام ممالک کے لیے رول ماڈل ہے جو اپنے لوگوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ سی پیک اور چینی تعاون کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دراصل سی پیک کے پہلے مرحلے میں روابط بڑھانے اور توانائی کی پیداوار پر توجہ دی گئی، اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جس کے تحت صنعتوں کو منتقل کرتے ہوئے زونز بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خاص طور پر زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافے کے لیے مدد چاہتے ہیں، کیونکہ چین میں زرعی پیداوار پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے، چین میں کپاس کی نئی اقسام تیار کی گئی ہیں اور ہمارے پاس بے شمار اراضی موجود ہے جہاں کپاس اگائی جاتی ہے، اس لیے زرعی پیداوار میں ہمیں چین کی مدد درکار ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ہمیں چین کی معاونت کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کا انقلاب دنیا کا مستقبل ہے اور اس تناظر میں چین نے بہت ترقی کی ہے، اس لیے اس شعبے میں ہم چین کی مدد چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواہش ہے چینی کھلاڑیوں کو کرکٹ سکھائیں، خنجراب پاس کے قریب پاکستان اور چین میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے خواہاں ہیں۔دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اس بات پرمکمل اتفاق ہے ملک کی قومی ترقی کے لیے سی پیک ناگزیرہے۔ عوام اور ریاستی ادارے سی پیک کو پاک چین دوستی میں رکاوٹیں ڈالنے والوں سے تحفظ فراہم کرنے اور ہمارے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ چین کے اخبار گلوبل ٹائمز میں ایک مضمون میں وزیراعظم نے لکھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری دونوں ممالک کے لیے بہت زیادہ اقتصادی اور تزویراتی اہمیت رکھتا ہے، ہماری حکومت سی پیک کو کو بی آر آئی کا ایک اعلیٰ معیار کا مظہر منصوبہ بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ چیلنجز خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں ہمارے خطے اور اس سے باہر امن اور خوشحالی کے لیے بوجوہ تکثریت اور بین الاقوامی تعاون کے متقاضی ہیں جیسا کہ صدر شی جن پنگ نے عالمی اقتصادی فورم سے اپنے حالیہ خطاب میں مناسب طور پر ذکر کیا ہے کہ عالمی بحران کے بڑھتے ہوئے طوفانوں کے درمیان ممالک 190 چھوٹی کشتیوں میں الگ الگ سوار نہیں بلکہ سب ایک بڑے جہاز کے سوار ہیں جس پر ہماری مشترکہ تقدیربھی ہے۔ سرحدوں سے متعلق امور، مسئلہ کشمیر جیسے تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات و سفارتکاری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں و اقدار کے مطابق حل کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نے لکھا کہ کووڈ 19 کی عالمگیر وبا کے خلاف دوطرفہ تعاون نے پاک چین مضبوط دوستی کو مزید تقویت دی ہے۔ چینی ویکسین اب پاکستان میں جاری بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن مہم کا بنیادی مرکز بن چکی ہیں۔ چینی سرمایہ کاروں اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے سازگار و دوستانہ ماحول اور چینی عوام کے لیے گرمجوشی کے جذبات کے ساتھ آپ کو آپ کی اگلی سرمایہ کاری اور اگلے تفریحی سفر کے لیے خوش آمدید کہتا ہے۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور سرمایہ کاری شراکت دار ملک بن گیا ہے۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ پاکستان میں چینی عملے اور منصوبوں کی حفاظت اور تحفظ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کا سرسبز وشاداب پاکستان اورچین کے صدر شی جن پنگ کا ‘‘خوشحال، صاف اور خوبصورت دنیا’’ کا وژن ایک جیساہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان شی جن پنگ کی جانب سے پیش کردہ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔