• news

محمد رضوان کی کامیابی محنت کا نتیجہ ہے عمران طاہر

لاہور(سپورٹس رپورٹر)کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مینٹور سر ویوین رچرڈز کراچی پہنچ گئے، وہ 3 روز آئسو لیشن مکمل کرنے کے بعد سکواڈ کو جوائن کریں گے۔ سر ویوین رچرڈز کا کہنا ہے کہ دوبارہ پاکستان آ کر بہت خوش ہوں۔انہوں نے کہا کہ ٹیم نے ایونٹ میں اچھا آغاز کیا ہے، جیت ہمیشہ اہم ہوتی ہے۔نیوزی لینڈ کے کولن منرو پاکستان سپر لیگ سیزن سیون کیلئے کراچی پہنچ گئے۔اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم مینجمنٹ کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ قوانین کے مطابق اگر کسی کو گزشتہ 28 روز کے دوران کرونا ہوچکا ہو تو اسکی آئسولیشن لازمی نہیں ہے۔ٹیم مینجمنٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کولن منرو فوری طور پر ٹیم کو سلیکشن کیلئے دستیاب ہوں گے۔ منرو سلیکشن کیلئے دستیاب مگر پشاور زلمی کیخلاف میچ میںشامل نہیں کیا گیا، طویل سفر کرکے بعدپہنچے ہیں اس لئے آرام دیا گیا ہے۔ملتان سلطانز میں شامل جنوبی افریقی کرکٹر عمران طاہر نے کہا ہے کہ پی ایس ایل میں ملتان سلطانز کا آغاز اچھا ہوا ہے، امید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ محمد رضوان کی کامیابی اس کی محنت کا نتیجہ ہے، اس کو جب جب موقع ملا اس نے فائدہ اٹھایا، وہ بھی اس مرحلے سے گزرے ہیں تو اندازہ ہے کہ اس نے یہاں پہنچنے کیلئے بہت کچھ سہا ہے اور آپ کڑے وقت سے گزر کر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وہ لمبی ہوتی ہے اور اس کا مزہ بھی آتا ہے۔ انہیں ان کے سینئرز نے چیزیں اس انداز میں نہیں بتائیں جس انداز میں بتانا چاہیے تھی اس لیے اب وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی اور نوجوان کو ایسا محسوس نہ ہو، وہ یہ کسی پر احسان سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ اس سے کسی نوجوان کرکٹر کا بھلا ہوجائے گا اور اس کو بھی یہ فن اچھی طرح آجائے گا۔ وہ جب بھی کسی نوجوان بائولر سے ملتے ہیں تو کوشش ہوتی ہے کہ اپنا تجربہ اسے بتائیں اور جو آتا ہے سکھائیں کیونکہ جب وہ سیکھ رہے تھے تو ان کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ پاکستان سپر لیگ میں ہمیشہ بہت اچھا تجربہ رہتا ہے،پاکستان آکر ہمیشہ اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ یہی پلے بڑھے ہیں، جو پاکستان میں بڑا ہوا ہو اس کی خواہش تو یہی ہوگی وہ پاکستان کیلئے کھیلے مگر وہ جنوبی افریقہ کے شکرگزار ہیں کہ وہا ں انھیں موقع ملا اور ان کا خواب پورا ہوا۔ اپنے ملک میں بطور اوور سیز پلیئر آکر کھیلنا عجیب تو لگتا ہے مگر اتنی محبت ملتی ہے کہ لگتا نہیں کہ باہر سے آیا ہوا کھلاڑی ہوں، ساتھ ہی ملتان سلطانز کے ڈریسنگ روم میں جو ماحول ہے اس سے لگتا ہے اپنے گھر میں ہی ہوں۔پاکستان سپر لیگ اعلیٰ پائے کی لیگ ہے، اس میں مقابلہ بہت سخت ہے، بائولرز کیلئے آسان نہیں ہوتا مگر اس سے بائولرز کو چیلنج بھی ملتا ہے کہ وہ خود کو بہتر سے بہتر کرے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ذرا سی بال لائن سے ہٹی تو اس کو باؤنڈری پڑے گی۔ جوں جوں بیٹرز چالاک ہو رہے ہیں، بائولرز بھی چالاک ہوتے جا رہے ہیں، بطور سپنر وہ یہی سوچتے ہیں کہ جتنی ورائٹی ہو وہ کم ہے، جدید کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ ورائٹی رکھنا ہوتی ہے، اب ایورج بائولنگ نہیں چلتی کیونکہ بیٹرز اب ہرجگہ شاٹس کھیل سکتے ہیں، طرح طرح کے شاٹس کھیلتے ہیں اس لئے بائولرز کو بھی اپنا معیار بلند کرنا پڑتا ہے۔ فیلڈ میں ان کی بھرپور انرجی کی کیا وجہ ہے تو عمران طاہر نے کہا کہ انہیں یہ سب کچھ بہت دیر سے ملا اس لیے ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر میچ کو انجوائے کریں، کوشش ہوتی ہے کہ جہاں کھیلیں اپنی ذمہ داری بھرپور نبھائیں کیونکہ اب ان کی عمر کے زیادہ پلیئرز نہیں، نوجوانوں سے مقابلہ ہے تو خود کو فٹ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔42  سالہ کرکٹر نے کہا کہ ان کی سیلیبریشن نیچرل ہے، وہ ارادہ کرکے نہیں بھاگتے، شاید ان کی سیلیبریشن ان کی ساری جدوجہد کی عکاس ہے جو یہ ظاہر کرتی کہ ’’ میں اس ہی جگہ سے ہوں، میں کھیل سکتا تھا مگر مجھے چانس دیر سے ملا۔ شاہنواز دہانی کیساتھ سندھی بولی جانے والی وائرل ویڈیو پر بھی بات کی اور بتایا کہ ان کے سندھی جاننے کی وجہ سکھر میں والد کے کام کی وجہ سے رہائش ہے، وہ سندھی سمجھ لیتے ہیں، جب شاہنواز دہانی سے پہلی بار سندھی میں بات کی تو وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی، شاید اس کو اپنائیت محسوس ہوئی ہوگی۔کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ ٹیم میں ہر کوئی ایک دوسرے کا ساتھ دیتا ہے، کسی کی کامیابی سے اپنی جگہ جانے کا اندیشہ کسی کو نہیں، ایسا ہی ماحول چنئی سپر کنگز میں بھی تھا، جب سب مل کر محنت کرتے تو اس کے مثبت نتائج ہوتے ہیں۔مستقبل پر کہنا تھا کہ ابھی تو وہ کرکٹ انجوائے کر رہے ہیں جب تک ایسی ہی بائولنگ کرتے رہے تو کھیلتے رہیں گے، فی الحال ٹی ٹونٹی انٹرنیشنلز کیلئے اپنی ٹیم کو بھی دستیاب ہیں، خواہش ہے کہ آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کھیلیں ، امید ہے جنوبی افریقہ کے سلیکٹرز دو سال سے ان کی لیگز کی کارکردگی دیکھیں گے اور یہ تسلیم کریں گے کہ وہ ٹیم میں جگہ کے حقدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی کوشش ہوگی کہ کرکٹ سے وابستہ رہیں اور بطور لیگ سپنر کوچ نوجوانوں کی مدد کیلئے ہر وقت میدان میں موجود رہیں۔

ای پیپر-دی نیشن