دْکھیے دی گل دْکھیا جانے
مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں فلاحی ریاست کا قیام حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کی اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ کسی بھی فلاحی ریاست میںشہریوں کے حقوق کا تحفظ اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہر شہری کا حق ہے۔امن وامان کا قیام، تعلیم و تربیت کے مواقع، روزگار، سکونت، طبی سہولیات اور ضروریات زندگی کی فراہمی سے ہی فلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ فلاحی ریاست میں ہر شعبہ کا قیام کا مقصد عوام کو سہولت دینے کے لیے ہوتا ہے۔ روز اوّل سے ملک عزیز میں دلفریب نعروں کے ذریعے فلاحی ریاست کے وعدے کیے گئے لیکن یہ وعدے وفا نہ ہوسکے۔ تاریخ کا سچ تو یہ ہے کہ ہمیشہ سے
فلاحی ریاست کا نقشہ دکھا کر
غریبوں کو سرمایہ داروں نے لوٹا
ملک عزیز میں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔عوام کئی عشروں سے بے روزگاری، ، غربت اور دیگر بنیادی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عوامی نمائندیسرسبز باغ اور سہانے خواب دکھا کر ووٹ سمیٹ کرجب ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو کرسی کا ایسا کھیل شروع ہوتا ہے جو اگلے الیکشن تک جاری رہتا ہے۔ یہ گھن چکر ستر سال سے جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایون اقتدار میں بیٹھے لوگ نہ ہی عوام کے غریب طبقہ سے ہیں، نہ ہی ان کو عوام کے مسائل کا اندازہ ہے اور نہ ہی وہ اس کے حل کے لیے مخلص۔ عارف کھڑی شریف میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ نے انسانی فطرت، رویوں اور نفسیات کو بڑے احسن انداز میں بیان کردیا۔ فرمایا
دْکھیے دی گل دْکھیا جانے سکھیے نوں کی خبراں
دْکھی یعنی پریشان انسان کا درد اور پریشانی صرف دْکھی انسان ہی سمجھ سکتا ہے سکھی یعنی خوشحال انسان ان تکالیف کا اندازہ نہیں کرسکتا۔ عظیم روحانی اور صوفی دانشور کا تجزیہ اتنا حقیقی ہے کہ دور جدید کے تجزیہ نگار اس کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر خلیق نظامی لکھتے ہیں کہ’’بھوکے انسان کی نفسیات پر وہ شخص کیا کام کر سکتا ہے جس نے عمر میں ایک وقت بھی فاقہ کی زحمت نہ اٹھائی ہو۔ اس کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جو عام لوگوں سے ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں ربط و ضبط رکھتا ہو ‘‘۔الیکٹرانک میڈیا اورپرنٹ میڈیا سیاست کے میدانوں اور شوبز کی دنیا سے باہر نہیں نکل رہا۔ عوام کے بنیادی مسائل کواجاگر کرنا کسی کی ترجیح نہیں۔ عوام کے دکھوں سے لاتعلق اور مسائل سے بے نیاز حکمرانوںکے بیانات، دانشوروں کے تجزیوں اور ماہرین معاشیات کے اعداد و شمار سے قوم مایوس ہوتی جا رہی ہے ۔
مصنوعی مہنگائی کا جن بے قابو ہوا پڑا ہے لیکن مصنوعی دانشور اس کو بین الاقوامی مسئلہ قرار دے کر اور اس کا موازنہ ترقی یافتہ مہذب ملکوں سے کر کے زخموں پرنمک پاشی کررہے ہیں۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان ممالک میں مہنگائی کے باوجود عام آدمی مناسب ذرائع آمدن اور بہترین بنیادی سہولتوں کی وجہ سے قابل رشک زندگی گزار رہا ہے۔ پاکستان میںمہنگائی تاجروں اور صنعت کاروں کو خوشحال سے خوشحال تر کر رہی ہے۔ مافیازراتوں رات عوام کی جیبیں صاف کررہا ہے۔مزدور، ملازم اور دیگرتنخواہ دار طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے کیونکہ اس کی آمدن بڑھانے کی کوئی سبیل نہیں کی جا رہی۔ کم آمدنی کی وجہ سے اس طبقہ کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ عام شہری نہ جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کی طرف سے ریاست مدینہ کے قیام کا نعرہ بڑا خوش آئند تھا۔ مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست بن گئی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ عوامی مسائل کا حل اور خوش حال معاشرہ کا قیام اس ماڈلریاست کے عمدہ نظام کی تقلید سے ہی ممکن ہے۔ لیکن یہ سب کچھ باتوں سے نہیں ہوگا اس کے لیے جس محنت اور خلوص کی ضرورت ہے وہ نظرنہیں آرہا۔ ریاست مدینہ کے عظیم حکمران نہ صرف عوام کا درد محسوس کرتے تھے بلکہ اس کے حل لیے ہر ممکن کو شش فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ راتوں کو بھیس بدل کر مدینہ شریف کی گلیوں کا دورہ فرماتے اور اپنے کندھوں پرراشن اٹھا کر ضرورت مندوں تک پہنچاتے۔
اکثر وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے اگر وسائل کم ہیں تو پھر یہ اللے تللے اور بے دریغ مصرفات کس لیے ؟۔اگروزیراعظم صاحب حکمنامہ جاری فرمادیں کہ ہرحکومتی نمائندہ، ملازم اورافسرعام آدمی کی طرح زندگی گزارے گا اس کی اولاد سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرے گی، یہ سب حضرات سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروائیں گے، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں گے، بجلی اور گیس کے بل اپنی جیب سے ادا کریں گے یقین مانیں چھ ماہ میں سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔