کاش کچھ قوانین ایسے بھی ہوں جن سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکے
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
آٹا ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر، ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی اضافہ جبکہ بخار کی ادویات کی بھی ناصرف قلت پیدا ہوئی ہے بلکہ قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔حیدر آباد میں دس کلو آٹے کا بیگ آٹھ سو سے آٹھ سو بیس روپے تک میں فروخت ہورہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت مہنگائی کم کرنے کے نعرے لگا رہی ہے تو دوسری طرف اشیاء خوردونوش اور ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نے ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر ایک سو انیس روپے بارہ پیسے مہنگا کر دیا ہے۔ ایل پی جی کے 11.8کلوگرام گھریلو سلنڈر کی قیمت دو ہزار چار سو انتالیس روپے ترانوے پیسے مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ جنوری میں گھریلو سلنڈر کی قیمت دو ہزار تین سو بیس روپے اکاسی پیسے تھی۔ یہ حکومتی کارکردگی کی چند خبریں ہیں۔ مہنگائی روکنے، قیمتوں میں استحکام یا پھر ناجائز منافع خوری کو روکنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ مشکل وقت میں عام آدمی کے مسائل کو سمجھ سکے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز بدقسمت ہیں کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حکومت کو بیانات جاری کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ کسی کو لانگ مارچ یا دھرنے کی مذمت سے وقت نہیں مل رہا تو کوئی اپوزیشن کو دھمکانے میں مصروف ہے۔ حکومت کو اتنی بے بس، کمزور اور تقسیم اپوزیشن ملی ہے اس کے باوجود عام آدمی کے مسائل پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ جہاں اپوزیشن کی اکثریت ہو وہاں بھی حکومت کو کامیابی مل جاتی ہے اور جہاں حکومت اکثریت میں ہے وہاں تو اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حکومت عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے علاوہ ہر طرح کی قانون سازی کر رہی ہے۔ کاش کہ کچھ قوانین ایسے بھی ہوں جن کے ذریعے مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔ شیخ رشید کو دھرنے اور لانگ مارچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہیں بچوں کے سسکنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔