• news
  • image

پب جی گیم: والدین یا نوجوان نسل ، قصور وار کون؟

آج کل موبائل فون کا استعمال ہم سب کی ضرورت بن چکا ہے۔ موبائل فون کے استعمال سے ہم اپنے تقریباً سبھی کام گھر بیٹھے باآسانی کر سکتے ہیں جہاں موبائل فون ہمارے لئے روزمرہ کے کام میں مدد فراہم کر رہا ہے‘ وہیں اسکی عادت ہمیں نقصان بھی پہنچا رہی ہے۔ جدید آپریٹنگ سسٹم کے آنے سے ہم موبائل فون کے بے جا استعمال کے عادی ہو گئے ہیں۔خاص طور پر نوجوان نسل موبائل فون کی اس قدر عادی ہو گئی ہے کہ انہوں نے معاشرہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی الگ ہی دنیا بنا رکھی ہیں۔ ہر وقت موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے ان کا تعلق ظاہری دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔ موبائل فونز میں موجودجدید آپریٹنگ سسٹم آپ کو ایسی گیمز مہیا کرتا ہے جس سے آپ ذہنی طور پر اس کے عادی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موبائل گیم پب جی نے تقریباً دنیا بھر کے افراد کو بہت متاثر کیا ہے۔آج سے تقریباً چار سال پہلے ریلیز کی جانے والی ‘پلیئراننان بیٹل گراونڈ یعنی ’’پب جی‘‘ کو دنیا میں تیزی سے مقبول ہونے والی گیمز میں سے ایک گیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایک محتاط اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس گیم کے 80 کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔ جن میں سے اوسطاً تین کروڑ افراد روزانہ کی بنیاد پر یہ گیم کھیلتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل اس گیم کی عادی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں شدت پسندی کا عنصر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دو سال قبل یکم جولائی کو پولیس کی جانب سے اس خونی گیم پر پابندی عائد کرنے کیلئے خط لکھا گیا تھا جس کے بعد کچھ عرصہ اس پر پابندی لگی بھی تھی جوکہ بعد میں ختم کردی گئی تھی۔ اس خونی گیم کے گھنائونے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو روح کانپ کر رہ جاتی ہیں۔ اس خونی گیم کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں میں ہونیوالے لرزہ خیز واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے کے ہاتھوں ماں، بھائی اور بہنوں کا قتل، دیور کے ہاتھوں بھابی اور بہن کا قتل، دوست کے ہاتھوں دوست کا قتل اور اس کے ساتھ نوجوان نسل میں خودکشی کا رجحان بھی تیزی سے سامنے آرہا ہے۔ لاہور کے علاقہ کاہنہ میں19 جنوری کو ایک ہی گھر کے چار افراد کی قتل کی لرزہ خیز واردات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہیلتھ وزیٹرناہید، اس کے بیٹے تیمور سلطان ، بیٹی ماہ نور فاطمہ اور جنت فاطمہ کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کا بیٹا علی زین نکلا، پولیس کی جانب سے جب ملزم علی زین سے تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ خون کی اس ہولی کے پیچھے آن لائن ویڈیو گیم( پب جی) بنیادی وجہ نکلی۔ پولیس تحقیقات کے مطابق زین نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ بار بار گیم ہارنے کے بعد اسکے ذہنی دبائو میں اضافہ ہوا تھا۔ اس نے یہ سوچ کر اپنے بہنوں، بھائی اور ماں کو قتل کیا کہ یہ بعد میں خود ہی گیم کی طرح زندہ ہوجائینگے ۔ ماضی میں ہونیوالے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پب جی گیم پر بلاک کرنے پر رائیونڈ سٹی کے علاقہ میں 15 سالہ حسن کو اسکے دوستوں نے اغوا کرکے قتل کردیا تھا۔ نواں کوٹ سکندریہ کالونی میں موبائل فون پر پب جی گیم کے شوقین رانابلال نے بھی والدہ سے جھگڑا ہونے پر اپنی بھابی، بہن اور گلی میں کھڑے دوست کو قتل کردیا تھا۔ یہی نہیں اچھرہ میں 11 ویںجماعت کے طالب علم نے پپ جی کھیلنے سے منع کرنے سے زندگی کا خاتمہ کیا۔ پنجاب سوسائٹی میں 28 سالہ نوجوان شہریار نے پپ جی گیم پر ہار سے دلبرداشتہ ہوکر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ شمالی چھائونی میں 16 سالہ غلام عباس نے پپ جی پر شرط لگائی‘ لیکن ناکام رہا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیاتھا۔ یہ تو وہ واقعات تھے جوکہ منظر عام پر آئے تو انکی تحقیقات محرکات سامنے آئے ، مگر اس خونی گیم کی وجہ سے رونما ہونے والے بیشتر واقعات تو رپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے منظر عام پرنہیں آئے‘ تاہم کاہنہ میں ماں، بھائی اوردو بہنوں کے قتل کے افسوناک واقعہ کو دیکھتے ہوئے اب ایک بار پھر پنجاب پولیس نے اس خطرناک گیم پر پابندی لگانے کیلئے وفاقی حکومت سے سفارش کا فیصلہ کر لیا۔ پنجاب پولیس نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ایک درخواست دی کہ پب جی سمیت ایسی تمام گیمز جن میں تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے، انہیں مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے تاکہ لوگوں کی ان تک رسائی نہ ہوسکے۔کیونکہ یہ تمام ایپلیکیشنز اور آن لائن گیمز کو بلاک کرنے کا اختیار صرف پی ٹی اے کے ہی پاس ہے اورانکے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو آن لائن مواد کا جائزہ اور تجزیہ کر سکتے ہیں۔بہرحال کاہنہ میں ہونے والے افسوناک واقعہ اور اس کے پیچھے چھپے محرکات کو دیکھتے ہوئے اب شدت پسندی کو فروغ دینے والی گیمز پر سختی سے پابندی کی وقت کی ضرورت بن گئی ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بحیثیت والدین ہم اپنے بچوں کو وہ وقت نہیں دے رہے جن کی ان کو ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل ہروقت موبائل فونز اور اس کی ان لائن گیمز میں مصروف نظر آتی ہیں۔ نوجوان نسل کے بگاڑ میں کسی کو قصوروار ٹھہرانے سے پہلے بحیثیت والدین اور معاشرہ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی ہوگی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن