پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بہتر کارکردگی کا امکان ہے
تجزیہ : محمد اکرم چودھری
پیپلز پارٹی کی پنجاب میں بہتر کارکردگی کا امکان موجود ہے۔ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ آصف علی زرداری کی مفاہمتی اور دروازے کھلے رکھنے کی سیاست کتنی کامیاب ہوتی ہے اس بارے میںحتمی رائے تو نہیں دی جا سکتی لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب میں 2018ء کی نسبت بہتر جگہ پر ضرور نظر آئے گی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان میثاق جمہوریت نے پہنچایا ہے ن لیگ کیساتھ مل کر چلنے کی وجہ سے پی پی پی پنجاب میں محدود ہوتی چلی گئی اس تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے بڑوں کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے مستقبل میں مسلم لیگ ن کیساتھ سیاسی اتحاد یا کچھ دو کچھ لو والی پالیسی نہیں اپنائی جائے گی۔ سیاسی بات چیت ضرور ہو سکتی ہے لیکن ن لیگ کو حریف سیاسی جماعت کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔ن لیگ کو ویسے بھی قیادت کے مسائل کا سامنا ہے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے پر ان کی جماعت کے بڑے قوم کو حقائق بتانے اور سچ بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ تازہ ترین صورتحال میڈیکل رپورٹس کی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے میاں نواز شریف کی واپسی کے ڈرامے کے نئے سیزن کا آغاز ہوا ہے۔ امکان یہی ہے سیزن بڑھتے رہیں گے لیکن میاں نواز شریف لندن سے ہی کام جاری رکھیں گے چونکہ مریم نواز کی خواہش کچھ اور ہے یہی وجہ ہے بڑے بھائی کی محبت یا خاندانی روایات کی وجہ سے وہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے خاندانی معاملات یا اختلافات کی وجہ سے ن لیگ کو مسائل کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے فیصلہ سازی میں بھی دشواری پیش آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ن لیگ کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے اور عدم اعتماد کے معاملے میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک مرتبہ پھر ن لیگ کو چیلنج کیا ہے کہ انہیں پی ٹی آئی کے تین درجن ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے تو تحریکِ عدم اعتماد لائیں۔ دونوں جماعتوں کے مابین اسی معاملے پر اختلاف ہے پیپلز پارٹی کہتی ہے ن لیگ پہلے پنجاب میں تحریکِ عدم اعتماد لائے۔ بلاول بھٹو آئینی راستہ اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن شاید کچھ جماعتوں کے نمایاں لوگوں کی خواہش غیر جمہوری طریقہ بھی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری لانگ مارچ کی بات کرتے ہوئے حکومت کو خبردار بھی کر رہے ہیں چونکہ وہ خود بھی باخبر ہیں اس لیے انہوں نے لمبے لمبے دھرنوں اور قومی اداروں پر حملوں کے بجائے پارلیمان میں سیاست کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔