نئے مشیر احتساب مصدق عباسی کا پہلا امتحان
ندیم بسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘
عام طور پر ہہ مصرع میر تقی میر سے منسوب کیا جاتا ہے دراصل یہ مصرع یا غزل کا شعر شاد لکھنوی کا ہے۔ یہ تو صرف تصیح کے لئے تھا میرا موضوع یہ نہیں بلکہ ملکی صورت حال پر ہلکی پھلکی طبع آزمائی کرنا ہے۔کیونکہ ملکی سیاست اور خصوصا اپوزیشن کا یہی حال ہے۔کراوڈ پلر کے نام سے پہچان مریم نواز کا یہ کہنا کہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے وہیں مسلم لیگ ن کی میٹنگ جس کی صدارت نواز شریف نے کی اور اپنی تجاویز دیں اور اس میٹنگ میں رانا ثناء اللہ بھی موجود ہوتے اور آکر میڈیا کو بتاتے کہ حکومت کے پاس نو ماہ کا وقت ہے۔خیر نوماہ کے الفاظ کو حکومت کے ساتھ منسوب کرنا ٹھیک نہیں۔ مگر سیاست میں یہ سب فارمولہ جائز ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ وہ سیاسی کھیل میں بارہویں کھلاڑی بنتے جارہے ہیں اور آئیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی میں قائدین کی لڑائی طول پکڑ سکتی ہے کیونکہ نواز شریف نے پاکستان آنا نہیں اور مجھے کیوں نکالا پر ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کے مرکز ی رہنما ساتھ کھڑے نظر نہ آئیں تو پھر باقی ماندہ پارٹی رہنما پاکستان میں کیا شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہونگے یا مریم نواز کے۔اس پر کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔مگرحکومت کے لوگ بہتر انداز میں اپنے کارڈز کھیل کر قدرے پیپلز پارٹی کے لئے راہ ہموار کررہے ہیں اور ن لیگ کے ساتھ ان کے فاصلوں کو بڑھا رہے ہیں ؟۔یا پیپلز پارٹی اپنے لئے لیول پلیفیلڈ بنارہی ہے؟۔کیونکہ سینٹ میں سٹیٹ بنک کے بل پر پیپلز پارٹی کے تانے بانے کہیں تو بنے گئے ہیں۔اس لئے پیپلزپارٹی خصوصی طور پر آصف علی زرداری قابل ستایش ہیں۔ایک خطرہ جو حکومت کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر درخواست میں تھا کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کروائی جائے وہ تو ختم ہوگیا ہے۔آئندہ اہداف کیا ہوسکتے ہیں کیا حکومت کے مشیر اس قابل ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے خلاف عدالتوں میں چلنے والے کیسز کی بہتر پیروی کرسکیں گے۔ میرا مطلب ہے کہ نئے مشیر احتساب صدق عباسی جن پر اب بڑا امتحان آن پڑا ہے کہ وہ نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف، مریم نواز،حمزہ شہباز کے خلاف مقدمات کی تیاری کس طرح کرتے ہیں۔پہلا امتحان تو ایک ہی دن ہوگا وہ دن 10 فروری کا ہوگا۔ اس روز دو اہم کیسز کی سماعت ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں مریم نواز کے خلاف کیس کی سماعت ہوگی اور لاہور میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاد 16 ارب روپے کی منی ٹرانزکشن کا کیس ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیا ہوا ہے۔ اس میں ضمانت خارج ہوسکے گی یا نہیں۔یہ تو اس روز ہی پتا چلے گا۔اس کے لئے سابق ڈی جی نیب اور موجودہ مشیر احتساب مصدق عباسی اپنے آپ کو تیار رکھیں۔اگر انہوں نے حکومت کی ٹیم میں شامل رہنا ہے کیونکہ عمران خان کے بقول کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں ڈالونگا۔ اس پر مصدق عباسی کو پورا زور لگانا ہوگا۔دوسری جانب یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی الیکشن لڑ نے کی تیاریاں کررہے ہیں۔گوکہ انہوں نے ابھی تک باضابطہ کسی جگہ اس کا اعلان نہیں کیا۔اگر وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کے لئے بہت موزوں اور عوام ان کی خود تایئد کنندہ ثابت ہوسکتی ہے۔کیونکہ چودھری محمد سرور ایک پاپولر اور عوامی سیاست دان تصور کئے جاتے ہیں۔ کس حلقے سے الیکشن لڑیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر ساہیوال ،فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سانگلہ ہل ایسے علاقے ہیں جہاں سے چودھری سرور الیکشن لڑ سکتے ہیں۔چودھری محمد سرور ایک زیرک سیاست دان ہیں پنجاب کی تاریخ میں بہت مشہور شخصیات گورنر رہی ہیں مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چودھری سرور ان کے مقابلے میں بہت پاپولر گورنر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کا ان پر بہت اعتماد ہے۔پی ٹی آئی کی مشاورت کا عمل ہو یا پالیسی سازی یا پارٹی کی تنظیم نو کا مسئلہ درپیش ہو ان کی رائے اور تجاویز پارٹی میں اور خود وزیر اعظم بہت احترام کرتے ہیں۔ان کی پاکستان سے محبت اور ملکی ترقی کی خواہش کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔صوبوں میں عمومی طور پر وزیراعلی مشہور ہوتے ہیں مگر پنجاب سمیت ملک میں ان کی شہرت خوش اخلاقی اور ملنساری کی مثال نہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں اوربھارتی ظلم و ستم کو پوری دنیا کے سامنے رکھتے ہیں یورپ یونین میں ان کو بڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو درہیش مشکلات میں گورنر پنجاب نے ہر جگہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔چودھری سرور اور ان کی اہلیہ بیگم پرویر سرور بہت فلاحی کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔چودھری سرور کا بڑا پراجیکٹ صاف پانی کی فراہمی بھی ہے اس کے لئے پورے پنجاب میں فلٹریشن پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد چند مقبول رہنمائوں میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی ہیں تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔فی الحال تو وہ گورنر پنجاب ہیں۔اور انتخابات میں انہیں حصہ لینے کے لئے گورنرشپ کو چھوڑنا ہوگا۔اور اس کے بعد ہی وہ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں خود عمران خان کو 2023 کے انتخابات میں ایسے موزوں امیدواروں کی تلاش ہوگی کیونکہ ماضی میں جن الیکٹیبلز کا داغ پی ٹی آئی پرلگا ہے وہ چودھری سرور جیسے امیدوار ہی میدان میں اتر کردھوسکتے ہیں اور عمران خان اور پی ٹی آئی کا مقدمہ عوام میں رکھ سکتے ہیں تو ضروری ہے بلکہ عمران خان بھی موزوں امیدواروں کا عام انتخاب سے پہلے ہی چنائو کرلیں تاکہ سیاسی اتحاد کی بیساکھیوں کے بغیر حکومت قائم کرسکی۔