حکومت سے مقابلہ کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہیں
سید شعیب شاہ رم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ دور حکومت میں جہاں ملک میں مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور مافیا کو کھلی چھٹی ہے۔ ویہی بیچاری عوام آئے روز وزیر اعظم اور دیگر وزراء کی جانب سے پاکستان سب سے سستا ترین ملک ہونے کے بیان سن کر خون کے گھونٹ پیتے نظر آتے ہیں۔ ہماری موجودہ حکومت کو ریاست مدینہ کے دعوی دار ہیں وہ دنیا میں قیمتوں کا پاکستانی کرنسی میں موازنہ کرتے ہیں، پاکستانی کرنسی جو پہلے ہی دنیا کی بے قیمت کرنسیوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل کر رہی ہے، اس میں دیگر ممالک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتیں نظر آئیں گی۔ ماہرین بار ہا کہہ چکے ہیں کہ خدا کے بندوں اگر قیمتوں کا موازنہ کر رہے ہو تو پھر آمدنی کا بھی تو موازنہ کروں۔اس نظریہ سے دیکھتے ہوئے حکومت کی تمام وزراء سمیت ہمت نہیں ہوتی یا یوں کہیے کہ وہ دیکھنا نہیں چاہتے ورنہ ان سے لوگ سوال پوچھیں گے جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
حکومت کی بد ترین کارکردگی نے اپوزیشن جماعتوں کو بہترین موقع دیا ہے کہ وہ کھل کر عوام کے سامنے حقائق رکھیں اور اپنی بھرپور قوت سے عوام کو اس کا حق دلوائیں اور عوام کی عدالت میں پیش ہو کر آئندہ انتخابات کیلئے حمایت حاصل کریں۔ لیکن بدقسمتی سے ایک آدھ جماعتوں کو چھوڑ کر اپوزیشن کی جماعتیں بھی ایک جگہ متحد نہیں ہوسکیں۔ ذاتی مفاد کی جنگ میں اپوزیشن جماعتیں بھی تقسیم نظر آرہی ہیں جس کا حکومت بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ یا مختصراً پی ڈی ایم میں بہت ساری جماعتیں ہیں لیکن ان میں اتحاد کا فقدان ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو ملکی سیاست میں اپنی اثرو رثوق رکھتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ میں حکومت بھی ہے جس کے باعث اس کی سیاسی حیثیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو ان کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دیگر اپوزیشن جماعتیں عوامی حمایت کی دعوی دار ہیں۔ پیپلز پارٹی ہی سینٹ میں اکثریت رکھتی ہے ، بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی ہی اپوزیشن کی واحد امید ہے جو حکومت کو گھر بھیجنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
اب جب کہ پیپلز پارٹی 27 فروری سے کراچی تا اسلام آباد مارچ کا اعلان کر چکی ہے تو حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کو ناکام کرے۔ پھر سونے پر سہاگا یہ کہ حالیہ جماعت اسلامی کے دھرنے اور ایم کیو ایم احتجاج پر رونما ہونے والے واقع کو جس طرح پیپلز پارٹی نے حل کیا ہے اس سے پیپلز پارٹی کی سیاسی بصیرت اور اثرو رثوق میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ حکومت خوفزدہ ہے کہ پیپلز پارٹی وہ صلاحیت رکھتی ہے کہ جب وہ احتجاج یا ریلی نکالے تو ملک کی تاریخ بدل سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے چند بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں پیپلز پارٹی کی ہیں تھیں چاہے تو ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے ہوں یا پھر وہ بے نظیر بھٹو شہید کاوطن واپسی پر تاریخی استقبال ہو ، پیپلز پارٹی ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو اتنی قوت رکھتی ہے کہ کسی عامر کا سامنا کرے اور عوام کی حمایت حاصل کر سکے۔
بہر حال پیپلز پارٹی کی جانب سے 27 فروری کے مارچ کی تیاریاں عروج پر ہیں، پارٹی قیادت متحرک ہے ، جیالے اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں جماعت پنجاب میں کھویا ہوا ووٹ بینک واپس حاصل کر سکتی ہے۔ عوام پہلے ہی حکومت سے نالاں ہے ایسے میں وہ ایک ایسی قیادت کی منتظر ہیں جو انہیں اس مشکل وقت سے نکالے۔ دیگر اپوزیشن جماعتیں فی الحال وہ قوت نہیں رکھتی ہیں حکومت کو ہلا سکیں۔ حکومت سے مقابلہ کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہیں۔
حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیپلز پارٹی کے مارچ کو ناکام کرنے کی طرح طرح کی کوششیں اور سازشیں جاری ہیں، مختلف طریقوں سے جیالوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنا ارادہ ترک کر دیں۔ گرفتاریاں اور ماروائے عدالت مقدمات کا بھی پارٹی کی لیڈرشپ کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اور جیسا نظر آرہا ہے بلاول بھٹو، آصف زرداری سمیت تمام قیادت اب کسی بھی طرح پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس کے حق میں فیصلہ سناتے ہیں، پیپلز پارٹی کو عوام کا اعتماد مل گیا تو وہ وقت موجودہ حکومت کیلئے ناکوں چنے چبانے کے برابر ہوگا۔تجزیہ کار پیپلز پارٹی کے اس مارچ کو پاکستان کے سیاسی افق پر ایک اہم موڑ تصور کر رہے ہیں، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فروری کا یہ مہینہ ملکی سیاست کیلئے بہت اہم ہے، اس مہینے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔