• news

وزیر اعظم عمران خان  کا چینی قیادت کی خصوصی دعوت پر  دورہ 

 
عبدالستار چودھری
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی دارالحکومت کا درجہ حرارت تیزی سے بلند ہونا شروع ہو گیا ہے، سینٹ میں حکومت کا ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد اپوزیشن کی ناکامی کے ذمہ دار ارکان سینٹ اور ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر ابھی تک تنقید کا ہدف بنے چلے آرہے ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے نواز شریف اور جہانگیر خان ترین کی تاحیات نااہلی کے خلاف عدالت عظمی  میں دائر کی گئی درخواست  اعتراض لگا کر  واپس کر دیا گیا ہے ۔اس درخواست میں صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کی جانب سے پٹیشن میں سپریم کورٹ کے5 رکنی لارجر بینچ  کے 62ون ایف کے تحت  فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پیپلزپارٹی کی قیادت میں پڑنے والی دراڑ کی وجوہات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یہی تقسیم ''کمزور'' حکومت کی طاقت بنی ہوئی ہے، اپوزیشن جماعتوں کے حکومت مخالف احتجاج کو حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوام میں بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ حکومت کے خلاف صف آراء اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد  اگرچہ منقسم ہے لیکن پھر بھی آنے والے دنوں میں حکومت کے لئے  معیشت جیسے مسائل  کافی پریشانیاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے 23 مارچ کو حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ پیپلزپارٹی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے حکومت کو گھر بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے  27 فروری کو لانگ مارچ کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
حکومت نے اگر بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کم کرنے کے لئے فوری طور پر اقدامات نہ اٹھائے اور آئی ایم ایف سے حاصل کردہ پروگرام کے مطابق ٹیکسز کا نفاذ جاری رکھا تو حکومت کے خلاف یہ حالیہ اپوزیشن احتجاج نتیجہ خیز بھی ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن سیاسی جماعتیں جہاں سیاسی طور پر حکومت کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا کر رہی ہیں وہیں منقسم اپوزیشن ایوان بالا میں حکومت کے لئے باعث رحمت بھی ثابت ہوئی ہے بصورت دیگر اکثریت رکھنے والی اپوزیشن کی موجودگی میں سینیٹ سے حکومت سٹیٹ بنک ترمیمی بل کیسے منظور کروا سکتی تھی۔ اس بل کی سینیٹ سے منظوری کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور پیپلزپارٹی اور دویگر اپوزیشن جماعتوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہونے کے علاوہ حکومتی وزراء کو بھی اپوزیشن کو تنقید کرنے کا موقع ملا۔ وزراء کا کہنا تھا کہ عمران خان کے سامنے ساری اپوزیشن زیرو ہے۔ سینیٹ سے بل سٹیٹ بنک ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اب حکومت کے لئے آئی ایم ایف پروگرام کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور معاشی مسائل کے حل میں حکومت کو کسی حد تک ریلیف مل چکا ہے۔
 دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان چینی قیادت کی خصوصی دعوت پر تین سے چھ فروری تک چین کا دورہ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے ہمراہ کابینہ کے ارکان اور اعلی سرکاری حکام سمیت اعلی سطح کا وفد بھی چین کا دورہ کرے گا۔ تین روزہ دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان، چینی صدر شی جن پنگ اور چینی وزیر اعظم لی چیانگ سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ پاکستان اور چینی رہنما ملاقاتوں میں سی پیک سمیت مستحکم تجارتی اور بالخصوص اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیں گے۔ وزیراعظم کے دورہ چین سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسلح افواج کے سربراہان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور ان ملاقاتوں میں بھی وزیراعظم کے دورہ چین کے ساتھ ساتھ سی پیک کے پراجیکٹس پر بھی بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران پاکستانی اور چینی رہنما اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ وزیر اعظم بیجنگ میں چین کے ممتاز کاروباری رہنمائوں اور چین کے سرکردہ تھنک ٹینکس، تعلیمی اداروں اور میڈیا کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے۔  صدر سپریم کورٹ بار کی سیاسی رہنمائوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف پٹیشن کو وفاقی دارالحکومت کے بعض سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ڈیل کے طور پر  بھی دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ان حلقوں کا ماننا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہے اور گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں حکومت کوئی ایسا کام نہیں کر سکی جس کو اس کریڈٹ میں دیکھا جا سکے۔ اب حلقوں کے مطابق اسٹیبشلمنٹ اب یہ محسوس کر رہی ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے اور معیشت کی بحالی سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ جب کہ وزیراعظم عمران خان ن لیگ کی قیادت کے حوالے سے کسی بھی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہیں اور  وفاق میں احتساب کے نئے مشیر کا تقرر بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھا جا رہا ہے ۔ ادھر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس عمر عطا بندیال نے 28 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کے طور اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ایوان صدر میں منعقدہ پروقار تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے حلف لیا جب کہ تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے خصوصی طورپر شرکت کی۔ تقریب کے دیگر شرکا میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری، وفاقی وزیربرائے اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین ،وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمودقریشی، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹرنسیم فروغ سمیت دیگر وفاقی وزرا، وزرائے مملکت ، ارکان پارلیمنٹ، ججز صاحبان، وکلا تنظیموں کے عہدیداروں اور سول وفوجی حکام شامل تھے۔ موجودہ حالات میں احتساب کا عمل   کس رفتار سے مکمل ہو گا، عدلیہ کو بھی اس کیلئے   خصوصی توجہ سے کام لینا ہو گا۔ مندرجہ بالاسطور کی اشاعت تک حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین پروگرام کی بحالی کے لئے مذاکرات ہو رہے ہوں گے اور حکومت کو ایک ارب ڈالر کا فوری ریلیف مل سکتا ہے، یہ پروگرام تین سالہ مدت کا پروگرام تھا جو ستمبر میں مکمل ہو رہا ہے اور اگر یہ پروگرام اپنی مدت پوری کرتا ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں دوسرا بڑا پروگرام ہو گا جو مکمل ہو گا۔ اس سے قبل سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ پہلا پروگرام تکمیل تک پہنچا تھا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ای پیپر-دی نیشن