• news

زرداری نے سخت رویہ بدلنے کا مشورہ دیا

تجزیہ: محمد اکرم چودھری
آصف زرداری نے شہباز شریف کو بتایا ہے میاں نواز شریف نے اپنا لب و لہجہ، انداز گفتگو اور سخت رویہ نہ بدلا تو جمہوریت کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے۔ سابق صدر پاکستان نے میاں شہباز شریف کو حسین نواز کی نامناسب گفتگو کا حوالہ بھی دیا  جس میں میاں نواز شریف نے بات چیت کرنے والوں کے بارے میں  نہایت سخت اور نامناسب الفاظ استعمال کیے تھے آصف علی زرداری نے نون لیگ کی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کسی بھی نظام حکومت میں سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ بنیادی طور پر آصف علی زرداری نے یہ ملاقات ایک بڑے بھائی اور سینئر سیاستدان کی حیثیت سے کی ہے۔ چونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کو اندازہ ہو چکا ہے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ سینٹ میں کوئی بل ہو یا قومی اسمبلی میں کوئی قانون سازی ہو ہر جگہ اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کو اس کا احساس ہو چکا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت چوتھے سال میں ہے، پانچواں سال انتخابات کا ہوتا ہے اور اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کی تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ حزب اختلاف زیادہ سے زیادہ قبل از وقت انتخابات کی کوشش کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت خاصا وقت گذار چکی ہے اور اس دوران اپوزیشن بھرپور کوشش کے باوجود پارلیمنٹ کے اندر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تمام تر کوششوں اور ناکام تجربات کے بعد  دونوں جماعتوں نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد آئندہ عام انتخابات تک متحد ہو کر حکومت مخالف کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ساری صورتحال میں آصف علی زرداری کا کردار جمہوریت پسند سیاست دان کا رہا ہے انہوں نے اپنا پیغام بہت واضح انداز میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں تک پہنچایا ہے۔ نون لیگ کے لیے آئندہ انتخابات میں بھی مسائل صرف قیادت کی سطح پر ہوں گے کیونکہ شہباز شریف کی سوچ اور ہے جبکہ میاں نواز شریف اپنی بیٹی کے ذریعے  جماعت کو کچھ اور انداز میں چلانا چاہتے ہیں وہ خود تو لندن بھاگے ہوئے ہیں اور کارکنوں کو جیل بھیجنے کی سیاست کے خواہشمند ہیں۔ میاں نواز شریف آصف علی زرداری کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن یہ بات طے ہے جس طرح مریم نواز اور ان کے چند نظام مخالف لوگ مسلم لیگ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ ممکن نہیں ہے۔ اب سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کا نعرہ لگا ہے یہ بھی صرف اور صرف سیاسی نعرہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن