بھارتی جارحانہ عزائم پر وزیراعظم اور ترجمان پاک فوج کا دوٹوک جواب
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کا جارحانہ رویہ علاقائی امن کیلئے خطرہ ہے۔ موجودہ بھارتی حکومت خطے کے دیرپا عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ بھارت کے غیرقانونی قبضے والے کشمیر میں مسلسل مظالم جاری ہیں۔ دنیا کو کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا نوٹس لینا چاہیے۔ گزشتہ روز بیجنگ میں چینی معروف تھنک ٹینکس‘ یونیورسٹیوں اور پاکستان سٹڈیز سنٹرز کے سربراہان سے ملاقاتوں کے دوران وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر پر چین کی غیرمتزلزل حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کا نظریہ ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں تصادم کے بجائے تعاون ہونا چاہیے۔
دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ بھارتی آرمی چیف کا لائن آف کنٹرول پر طاقت کی بنیاد پر جنگ بندی کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں کی حفاظت سے متعلق پاکستان کے خدشات کی وجہ سے ہی جنگ بندی پر اتفاق ہوا اس لئے کوئی بھی فریق اسے اپنی طاقت یا دوسرے کی کمزوری سے تعبیر نہ کرے۔
اس خطے اور اقوام عالم کیلئے سنگین خطرات کا باعث بننے والے بھارت کے جارحانہ‘ توسیع پسندانہ عزائم کا اسکے پانچ اگست 2019ء کے اقدام سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کے تحت بھارت کی مودی سرکار نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کی باربار کی مذاکرات اور یواین سیکرٹری جنرل‘ امریکی صدر اور یورپی یونین کی ثالثی پیشکش اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو درخورِاعتنا نہ سمجھتے ہوئے اپنے ناجائز زیرقبضہ وادیٔ کشمیر کو لداخ اور جموں کے دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا اور اس طرح نہ صرف کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو ٹھکرایا بلکہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں بھی اضافہ کیا۔ مودی سرکار نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے کشمیر میں غالب اکثریت میں موجود مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی بھی سازش کی جس کا مقصد تقسیم ہند کے ایجنڈے کی بنیاد پر کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا تھا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے 1972ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دورۂ بھارت کے موقع پر پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کرکے دوطرفہ مذاکرات کا راستہ کھولا جس کا مقصد کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کو غیرمؤثر بنانا تھا مگر پھر بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے بھی بدکنے لگا جبکہ اس نے خودساختہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان سے مذاکرات کے دروازے رعونت کے ساتھ بند کر دیئے تھے اور مذاکرات کیلئے دہلی میں موجود وزیر خارجہ پاکستان کو واپس بھجوا دیا تھا۔ پاکستان نے اسکے باوجود علاقائی اور عالمی امن کی خاطر بھارت سے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے۔ اسکے جواب میں بھارت اوڑی اور پلوامہ دہشت گردی کا ڈھونگ رچا کر پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھاتا اور کنٹرول لائن پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کرتا رہا۔ اسکے ساتھ ساتھ اس نے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ بھی تیز کر دیا تاکہ انکی حق خودارادیت کی آواز دبائی جاسکے۔ اسی کے ردعمل میں کشمیریوں نے اپنی جدوجہد تیز کی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقوام عالم کو مکروہ بھارتی چہرہ دکھانا شروع کیا۔ پاکستان نے بھی کشمیریوں کی اس جدوجہد کا دامے‘ درمے‘ سخنے اور سفارتی سطح پر ساتھ دیا اور انکی آواز عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں تک پہنچائی۔
یقیناً اسی کے ردعمل میں بھارت کی مودی سرکار نے پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کے قافلے پر خودکش حملے کا ڈرامہ کیا اور اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے اندر گھس کر مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ پاکستان نے اس پر بھی بھارت کو شفاف انکوائری میں معاون بننے کی پیشکش کی مگر مودی سرکار کا سازشی ذہن پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گیا جس کے تحت بھارت نے 26 فروری 2019ء کو پاکستان کی فضائی حدود میں اپنے طیارے داخل کئے تو پاک فضائیہ کے چوکس دستے کے تعاقب پر وہ رفوچکر ہو گئے۔ اگلے روز 27 فروری کو بھارتی طیاروں نے پاکستان پر بمباری کی نیت سے اسکی فضائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پاک فضائیہ کے مشاق طیاروں نے انہیں فضا میں ہی اچک لیا اور بھارت کے دو طیارے مار گرائے۔ ایک طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے اگلے روز خیرسگالی کے جذبے کے تحت اسے بھارت واپس بھجوا دیا گیا مگر بھارت نے اس خیرسگالی کا جواب بھی گیدڑ بھبکیوں کی صورت میں دیا جس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو تاراج کرنیوالے اسکے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون میں بالخصوص مودی سرکار کے دور میں اضافہ ہوا ہے جو بھارت میں ہندو انتہاء پسندی کو فروغ دیکر اس کا جمہوری چہرہ بھی داغدار کر رہی ہے اور پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی نئے خطرات پیدا کررہی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی سلامتی کو براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف ہے اس لئے ملک کی سلامتی اور سرحدوں کے تحفظ کی ضامن افواج پاکستان سرحدوں کے باہر سے ایسے کسی بھی چیلنج سے عہدہ برأ ہونے اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ہمہ وقت چوکس اور تیار ہیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
اس حقیقت کا یقیناً عالمی برادری کو بھی ادراک ہے کہ مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کے بغیر علاقائی اور عالمی امن کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا اس لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت دنیا کے نمائندہ اداروں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کی مذمت اور کشمیر کی پانچ اگست سے پہلے والی خصوصی آئینی حیثیت بحال کرنے کا بھارت سے تقاضا کیا گیا۔ بھارت پر بڑھتے اسی عالمی دبائو کی وجہ سے بھارت کنٹرول لائن پر پاکستان کے ساتھ سیزفائر پر مجبور ہوا جسے پاکستان نے علاقائی امن کی خاطر اور جذبۂ خیرسگالی کے تحت قبول کیا جبکہ بھارت نے کشمیری عوام کو فوجی لاک ڈائون کے ذریعے محصور کرکے ان پر ہر طرح کے مظالم توڑنے کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ کشمیری عوام نے گزشتہ روز یومِ یکجہتی ٔ کشمیر کے موقع پر دونوں جانب والے کشمیر اور پاکستان و بھارت سمیت دنیا بھر میں ریلیاں نکال کر اور جلسوں جلوسوں کا اہتمام کرکے اقوام عالم کو جاری بھارتی مظالم سے آگاہ کیا ہے جبکہ پاکستان کے ایوان بالا میں ایک متفقہ قرارداد منظور کرکے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور یہ قرارداد دنیا بھر کے سربراہوں کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ پوری قوم اور قومی سیاسی‘ دینی قیادتوں نے بھی ریلیوں اور بیانات کے ذریعے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا ٹھوس پیغام دیا۔ یہ درحقیقت کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کا ہی جواب ہے جس سے کشمیریوں کے حوصلے بلند اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے انکے دلوں میں نئی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ بھارت کو بہرحال کشمیری عوام کی امنگوں اور یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر آنا ہے جس کے بغیر علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ اس تناظر میں عالمی قیادتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کا حق دلانے اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کیلئے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ بصورت دیگر علاقائی اور عالمی امن پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔