اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پر کس خوف کا شکار،حقائق سامنے لائے
تجزیہ :محمد اکرم چودھری
تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں اپوزیشن کس خوف کا شکار ہے حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹرز یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت کن مصلحتوں کا شکار ہے۔ کیوں لگ بھگ ساڑھے تین سال گذرنے کے باوجود حزب اختلاف پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف کوئی قابلِ ذکر کام کیوں نہیں کر سکی۔ اگر حکومت ناکام ہے اور عوامی مسائل میں اضافے کی ذمہ دار ہے تو اپوزیشن اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ شاہد خاقان عباسی پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں پہلے وہ عوام کو یہ بتائیں کہ کیا لندن بیٹھے میاں نواز شریف ان پر اعتماد کرتے ہیں، وہ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ آصف علی زرداری کے بغیر ایک سال کیسا گذرا ہے اور آصف علی زرداری کے بعد آج چودھری برادران سابق صدر آصف علی زرداری کی دعوت کر رہے ہیں۔ کیا شاہد خاقان عباسی قوم کو بتائیں گے کہ ان سیاسی سرگرمیوں میں ان کی رائے شامل تھی۔ شاہد خاقان عباسی جانے کن جمہوری قدروں کی بات کرتے ہیں، دوسروں کو جمہوری قدروں کا درس دیتے ہیں لیکن حقائق عوام سے چھپائے رکھتے ہیں۔ کیا ووٹرز تک حقائق پہنچانا جمہوریت کا حصہ نہیں ہے۔ کیا اپوزیشن میں ناتجربہ کار سیاستدان شامل ہیں، کیا وہ نہیں جانتے کہ قومی اسمبلی میں آئینی تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ اگر سب اس طریقہ کار سے واقف ہیں تو پھر آئینی طریقہ کار پر عمل کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ شاہد خاقان عباسی پہلے لندن بیٹھے اپنے قائد کا اعتماد حاصل کریں پھر اپنے ووٹرز کو یہ بتائیں کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ یہ نہ ہو کہ نون لیگ کا ایک گروہ جمہوری روایات کے فروغ کا درس دیتا رہے اور آئندہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں بدلی ہوئی جماعت نظر آئے۔ سو پاکستان تحریک انصاف کا فارورڈ بلاک بنوانے پر کام کرنے کے بجائے اپنی اپنی سیٹیں بچانے اور صوبے میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے پر توجہ دیں۔ کیا وجہ ہے کہ نون لیگ آج تک پنجاب میں بہتر نمبرز ہونے کے باوجود تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کر سکی، اگر اپوزیشن کو پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی پر اتنا ہی یقین ہے تو آئینی راستہ اختیار کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور ان کے ساتھیوں کو سب سے پہلے عوام کو سچ بتانا ہو گا کہ 2018 سے اب تک انہوں نے کیا کچھ چھپایا ہے۔