• news

پاکستان میں صدارتی نظام کی لا حاصل بحث

ایک بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ہاں وہ دانشور ، صحافی حضرات، اینکرز، اور سیاستدان جو آئے دن پاکستان کے لیے صدارتی نظام کو نسخۂ کیمیا بنا کر پیش کررہے ہیں اور صدارتی طرز حکومت کو پاکستان کے تمام مسائل کے حل کی واحد کنجی خیال کررہے ہیں، حقیقت میں صدارتی نظام کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ بہت سے صدارتی نظام کے حامی حضرات کو پڑھنے اور سننے کا اتفاق ہوا تو اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکا۔ صدارتی نظام کی حمایت میں ایسے ایسے دلائل سننے اور پڑھنے کو ملے جو کم از کم میں نے چالیس سال سیاسیات کے مضمون کو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے نہ پڑھے اور نہ ہی سنے بلکہ اصل بات اس کے بالکل برعکس ہے جو بیان کی جارہی ہے۔ چند دانشور حضرات تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ صدارتی کے ساتھ ’اسلامی صدارتی نظام‘ کی تکرار بھی کررہے ہیں۔ لگتا ہے ایسے دانشور ’اسلامی سیاسی نظام‘ سے بھی معمولی واقفیت نہیں رکھتے۔ میں اسلامی نظام حکومت کے حوالے سے بحث نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور زیادہ وقت کا مْتقاضی ہے۔
صدارتی نظام کے حامیوں کی خاص طور پر یہ بات کہ صدارتی نظام میں اختیارات کا سر چشمہ صرف صدر کی ذات ہوتی ہے، اور وہ اکیلا سیاہ اور سفید کا مالک ہوتا ہے۔ اپنے اختیارات کے استعمال میں وہ کسی کا پابند نہیں ہوتا اور ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی اسے بلیک میل یا دباؤ میں نہیں لاسکتا۔ سب ملکی ادارے اس کے ماتحت کام کرتے ہیں، آپ حیران ہوں گے یہ سب باتیں غلط ہیں، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میری آسان ترین الفاظ میں کوشش ہوگی کہ صدارتی اور پارلیمانی نظام کے بارے فرق کو واضح کرسکوں۔ جمہوری طرز نظام میں عاملہ یعنی انتظامیہ کے حوالے سے پوری دنیا میں تین طرح کے طرز حکومت ہیں، ایک پارلیمانی ، دوسرا صدارتی، اور تیسرا مخلوط طرز حکومت ہے جس میں پارلیمانی اور صدارتی نظام کی خصوصیات کو یکجا کردیا گیا ہے۔ مثالی پارلیمانی نظام برطانیہ میں ہے، اسی طرح امریکہ صدارتی نظام کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ مخلوط نظام درجنوں ممالک میں ہے، جیسا کہ ترکی، فرانس کی مثال دی جاسکتی ہے، جہاں انتظامی امور کا نگران وزیراعظم بھی ہے اور بہت سے انتظامی اختیارات صدر کو بھی حاصل ہیں۔ چین میں چونکہ ایک سیاسی جماعت کی حکومت ہوسکتی ہے، اس لیے انتظامی امور وزیراعظم نبٹاتا ہے، اور زیادہ تر اختیارات صدر کے پاس ہوتے ہیں۔ 
اب آتے ہیں صدارتی نظام کی طرف۔ امریکہ میں یہ نظام سوا دو سو سال سے رائج ہے اور اب تک چھیالس صدور یہ عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ ایک مرتبہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے ایک طالب علم نے سوال پوچھا کہ امریکی صدر کے پاس کتنے اختیارات ہیں اور وہ کون کون سے ہیں؟ مجھے بڑی دیر سوچنا پڑا کہ اس کا کیا جواب دوں؟ کیونکہ امریکی صدر کے پاس کوئی ایک اختیار بھی نہیں ہے۔ پھر خیال آیا کہ صرف ایک اختیار ایسا ہے جو امریکی صدر اپنی مرضی اور منشاء سے استعمال کرسکتا ہے، اور وہ اختیار ہے وفاقی عدالتوں سے دی گئی سزائیں معاف کرنے یا ان میں کمی بیشی کرنے کا اختیار۔ یہ بھی محدود اختیار ہے ، کیونکہ صدر ان عدالتوں، جو کہ ریاستوں کی عدالتیں ہیں کی جانب سے دی گئی سزاؤں پر اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ آپ یقین کریں اس کے علاوہ اگر کوئی اختیار امریکی صدر کے پاس ہوتا تو میں ضرور بیان کردیتا۔ 
وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکی آئین کے بانی سیاستدان جو فلاسفر بھی تھے ایک طاقتور انتظامی عہدہ سے خائف تھے۔ برطانوی کالونی ہوتے ہوئے وہ بادشاہوں کو بھگت چکے تھے، خصوصاً شہنشاہ جارج سوم کے مکمل اختیارات کا خمیازہ لاکھوں لوگوں کی جان کی قربانی کی صورت میں ادا کرنا پڑا تھا، تب کہیں جاکر ایک طویل جنگ کے بعد انہیں آزادی جیسی نعمت ملی تھی۔ اب وہ ایک بار پھر کسی طاقتور حکمران کا تصور ہرگز نہیں رکھتے تھے۔ آئین ساز اجلاس میں جو فلاڈیلفیا شہر میں منعقد ہوا، جس کی صدارت جارج واشنگٹن کررہے تھے، بڑے بحث مباحثہ کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ ایسا طرز حکومت تشکیل دیا جائے جس میں کوئی ایک اختیار بھی کسی ایک شخص یا ادارے کے پاس نہ ہو تاکہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرسکے اور ہر شخص یا ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہے۔ اس طرز حکومت کو آئین ساز راہنماؤں نے جنہیں امریکی اپنے اولین باپ (Founding Fathers) سمجھتے ہیں، اسے متوازن روک ٹوک کے ساتھ اختیارات کی تقسیم والا نظام قرار دیا۔ اس نظام کے تحت حکومت کے تین اہم شعبے، انتظامیہ، مقننہ، اور عدلیہ اپنے اختیارات مل جل کر استعمال کرتے ہیں۔ آئین کی رو سے عدلیہ سب افراد اور اداروں کے درمیان نزع کی صورت میں فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی رکھتی ہے۔ جبکہ مقننہ کے پاس ججز اور صدر اور نائب صدر کے مواخذے کا اختیار بھی ہے۔ گو یہ اختیار لکھنے کی حد تک ہے چونکہ ایسا کبھی ایک بار بھی نہیں ہوسکا، سوائے ایک درجن کے قریب ضلعی سطح کے ججوں کے مواخذے کے جن کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا۔ نہ کوئی صدر اور نہ ہی اعلی عدلیہ کے کسی جج کو مواخذے کے ذریعہ ہٹایا جاسکا ہے۔ 
(جاری) 

ای پیپر-دی نیشن