• news

کیا کبھی نظام بدلے گا؟

عدل و انصاف کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے برطانوی وزیراعظم کے اس قول کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے کر رہی ہیں تو برطانیہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ہمیں ایک مسلمان کے طور پر علم ہونا چاہیے کہ چودہ پندرہ صدیاں قبل حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے انصاف کے بغیر اسکی بقا ممکن نہیں ہے۔‘‘ اس سے عدل و انصاف کی اہمیت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ باقی تشریحات اور چرچل جیسے لوگوں کے اقوال کو دہرانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ عدل و انصاف کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امام غزالی نے کہا تھا کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ دنیا سے اپنی آخری کتاب قرآن مجید واپس لے لے اور انسانوں کیلئے ایک لفظ ’’اعدلو‘‘یعنی عدل کرو رہنے دے تو بھی معاشرہ زندہ اور سلامت رہ سکتا ہے۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ عدل اپنے معانی و مفاہیم میں بڑی وسعت رکھتا ہے اور معاشرے میں عدل و انصاف کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی اسکی اہمیت ہے مگر ہم بات کرینگے معاشرے میں عدل کی فراہمی کی جس کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے اور ریاست نے اس حوالے سے قواعد و ضوابط کے تحت ایک ادارہ عدلیہ قائم کر رکھا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بگاڑ کی انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ اگر ہمارا نظامِ عدل درست ہو جائے تو وطن عزیز جنت نظیر بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عدلیہ انصاف کی فراہمی ججوں کے ذریعے کرتی ہے۔ ہمیں ان ججوں پر فخر ہے جن کی حیثیت اپ رائٹ ججز کے طور پر مسلمہ ہے۔ مگر اس معاشرے میں ایسے ججز بھی آئے جن کے کردار و عمل سے عدلیہ کی تاریخ گہنا گئی۔ اور ایسے کردار کم سہی مگر ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ میں سوئٹزرلینڈ میں تھا وہاں میرا دوست ہائیکورٹ کا جج تھا جو بعد میں سپریم کورٹ میں بھی تعینات ہوا۔ اسکے بارے میں ایک واقعہ آخر میں بیان کروں گا۔ جج ہر تعصب سے بالاتر، لالچ سے پاک اور سادگی و وقار کا پیکر ہوتا ہے۔عدلیہ میں بلاشبہ احتساب کا بھی ایک نظام ہے اسے بھی کچھ لوگ یرغمال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب میں سوئس جج کا واقعہ سناتا ہوں۔ قارئین! جسٹس فرانزنیفلر ہائیکورٹ کا جج تھااور میں بھی وہی ایک ادارے میں ملازمت کرتا تھا ۔ لنچ بریک کے وقت برن شہر کا سارا ہی سرکاری سٹاف ریسٹورانٹس میں لنچ کرتے تھے اور اخلاقاً کبھی کبھی میں اپنے ساتھ بیٹھے دوست کا بل بھی ادا کر دیا کرتا تھا اور ایسے ہی ایک دن جسٹس فرانز نے ویٹر کو بل ادا کرتے ہوئے میر ے سوپ کے پیسے بھی ادا کر دیئے اور مجھے معذرت سے کہا کہ مسٹر وڑائچ میرا بجٹ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں تمہارے پورے لنچ کے پیسے ادا کر سکوں۔ میں نے جسٹس فرانز کا شکریہ ادا کیا اور کہا اسکی کوئی ضرورت نہیں میںنے آپ کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر بہت کچھ سیکھا ہے میرے لیے یہی کافی ہے۔ قارئین!جسٹس فرانز نیفلربعد میں سپریم کورٹ کے جج بنے اور دس سال تک سوئٹزر لینڈ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔اور جب وہ ریٹائر ہوئے تو کرایے کے گھر میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہے تھے اور اسی طرح یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں ججز جب ریٹائر ہوتے ہیں یا تو کرایے کے گھر وں میں زندگی گزارتے ہیں اور بوڑھا ہو جانے پر سینئر سٹیزن کیلیء مخصوص پناہ گاہوں میں رہائش اختیار کر لیتے ہیںلیکن ایسا سب صرف مسلم ممالک میں اور سائوتھ ایشیا ہی میں ممکن ہے۔مجھے قوی یقین ہے کہ پرائم منسٹر عمران خان ضرور اس ملک اور قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیںاگر حکومت آج بھی شروع کرے تو پاکستان کے عدالتی نظام میں ایک بڑا ریفارم لانے کی ضرورت ہے۔عمران خان اقتدار میں انصاف اور احتساب کے نام پر آئے تھے مگر انکی گرتی ہوئی مقبولیت اور ساکھ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ سٹیٹس کو والے سسٹم کو شکست نہیں دے سکے۔

ای پیپر-دی نیشن