بیورو کریسی کی نااہلی پاکستان میں کاروبار میں بڑی رکاوٹ: آئی ایم ایف
اسلام آباد (عترت جعفری+ نیٹ نیوز) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ بجٹ میں اٹھائے جانے والے اقدامات پر مارچ میں بات چیت کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اسی بات چیت میں قرض پروگرام کا ساتواں ریویو بھی ہو گا۔ ایف بی آر اور وزارت خزانہ دونوں نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ساتویں ریویو میں جو طے ہو گا وہ بجٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔ چھٹے ریویو کی رپورٹ اس وقت تک جو اشارے موجود ہیں ان کے مطابق آئی ایم ایف نے آئندہ سال ایف بی آر ریونیو کے ہدف میں11سو ارب روپے کے اضافہ کی تجویز دی ہے۔ حکومت پاکستان نے یہ لکھ کر دیا ہے کہ بجٹ میں معذوروں، عمر رسیدہ شہریوں اور زکوۃ کے سوا تمام انکم ٹیکس رعایات ختم کر دی جائیں گی، پرسنل انکم ٹیکس بھی بڑھے گا۔ اس وقت انکم ٹیکس کی مد میں378 ارب روپے کی رعایات موجود ہیں۔ بات چیت میں یہ طے کیا جائے گا کہ ان میں سے کتنی ٹیکس رعائتیں بجٹ میں واپس لی جائیں گی۔ ان کا بوجھ ٹیکس گزار کی جانب منتقل ہو گا۔ پروگرام کے باقی دو ریویو جون اور ستمبر میںہوں گے۔ وازرت خزانہ اور ایف بی آر دونوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں جو ایکشن بتائی گئی ہیں ان پر ابھی بات چیت ہونا ہے اور جو بھی فیصلے ہوں گے وہ بجٹ میں شامل کئے جائیں گے۔ اس وقت تعلیم کے لئے خرچ3.9 فیصد (جی ڈی پی) ہے۔ اسے بڑھا کر5.7 فی صد کرنے کی ضرورت ہے جبکہ یہ2030ء تک جی ڈی پی کے9.6 فی صد ہونا چاہئے۔ اس وقت 22طلبا کے لئے ایک استاد کام کرتا ہے۔ اس کی شرح کو15طلبا فی ٹیچر پر لانا چاہئے۔ پاکستان میں فی طالب علم اخرجات 244 ڈالر ہے۔ ان کو 570 ڈالر ہونا چاہئے۔ پاکستان کو اس سال 26 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات ہیں۔ اس میں سے چین سے6.6 ارب ڈالر، یو اے ای سے 2 ارب ڈالر، ورلڈ بنک سے 2ارب ڈالر اور اے ڈی بی سے 1.5ارب ڈالر ملے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یہ بتایا ہے کہ وزرات خزانہ میں سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں کی نگرانی کے لئے مئی تک ایک سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا جائے گا۔ جبکہ ملک کے اندر آر ایل این جی کی بنیاد پر قائم بجلی کے کارخانے جون تک نجی تحویل میں دے دئیے جائیں گے۔ اس وقت گیس کے شعبہ میں554 ارب روپے کے بقایا جات موجود ہیں جبکہ آر ایل این جی کے شعبہ میں بھی ایک سو ارب روپے ادا ہونا باقی ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یہ بھی بتایا ہے کہ فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گرین سکوک، شریعہ سکوک، جینڈر بانڈ، پانڈا بانڈ جاری کئے جا سکتے ہیں۔ اب کوئی ایمنسٹی نہیں دی جائے گی اور رعایت دینے کا ایس آر او ہو گا۔ آئی ایم ایف کو یہ بتایا گیا ہے کہ اس وقت جی ایس ٹی میں جو رعایات موجود تھیں ان کا 60 فیصد واپس لیا گیا ہے جبکہ باقی 40فی صد رعایات میں سے 25فی صد کا تعلق کھاد، کرم کش ادویات اور ٹریکٹرز سے ہے۔ ان زرعی ان پٹس کو بھی2023 تک ٹیکس کر دیا جائے گا۔ پاکستان نے بیرونی فنانسنگ کے ذرائع میں یہ بتایا ہے کہ رواں سال آئی ایم ایف سے 520 ارب روپے آئیں گے جبکہ ائندہ سال مالی سال میں 193ارب ملین گے ،آئندہ سال آئی ایم ایف بجٹ سپورٹ میں 24 ارب دے گا۔ ادھر عالمی مالیاتی ادارے نے کہا ہے کہ بیورو کریسی کی سست روی اور ریگولیشنز کی وجہ سے پاکستان میں کاروبار کرنا مشکل ہے۔ بیوروکریسی کی نااہلی کاروبار کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں جبکہ کرپشن میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں بیوروکریسی کی نا اہلی کاروبار کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بہت زیادہ ریگولیشنز سے بھی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں جبکہ کمزور ٹیکس سسٹم ٹیکس ادائیگیوں میں رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان ٹیکس ادائیگی کا عمل آسان بنائے اور کاروباری ماحول بہتر کرنے کیلئے غیر ضروری ریگولیشنز ختم کی جائیں۔