نایاب عمرانی کیس: معاملہ انسانی حقوق سے جڑا‘ نمٹانا چاہتے ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے نایاب عمرانی کے اہلخانہ از خود نوٹس کیس میں فریقین کے وکلا سے تحریری معرضات طلب کر لیں۔ سپریم کورٹ میں نایاب عمرانی ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربرا ہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نایاب بے یارومددگار سپریم کورٹ میں پیش ہوتی رہی، اب فیصل صدیقی اس کی وکالت کریں گے۔ یہ بہت اچھا ہوا ہے عدالت کو کیس ٹرانسفر کرنے اور نایاب کے بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق معاونت چاہیے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا اس کیس کے دو اہم ایشو ہیں، ایک نایاب کی بہن کے قتل کا کریمنل معاملہ ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا میرے خیال سے قتل کیس کا جیل ٹرائل ہو سکتا ہے اور ٹرائل کورٹ کو جلد سماعت کیلئے بھی کہا جا سکتا ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا اس کے سوتیلے بھائیوں نے اس کے گھر کے چار افراد قتل کیے ہیں۔ جس کے بعد اس کے معذور بھائی اور مقتولہ بہن کے بچوں کی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ تاہم نایاب عمرانی اپنی بہن صنم کے قتل کے ٹرائل کے لیے جیکب آباد نہیں جا سکتی۔ میرے خیال سے کیس کو جیکب آباد سے کراچی ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق اس وقت دیکھے جاتے ہیں جب بڑے پیمانے پر مفاد عامہ کا معاملہ ہو، ہم اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا زمین بھی رکھیں اور رقم بھی نہ دیں ایسا تو نہیں ہو سکتا، مقدمہ میں شامل دوسرے وکیل راجہ عامر عباس نے کہا سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ٹرائل رکا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے میری درخواست ضمانت التوا کا شکار ہے، جس پر جسٹس قاضی محمد امین نے کہا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عدالت چاہتی ہے کہ شفاف ٹرائل ہو، شفاف ٹرائل ملزم کا بھی حق ہے۔ عدالت نے نایاب عمرانی کے حقوق کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ عدالت ٹرائل کے مقام کا تعین کر رہی ہے۔ جس ٹرائل کے مقام کا تعین ہو جائے تو ضمانت کا معاملہ جلد حل جائے گا۔