• news

پاکستان کو اخراجات میںکمی، بجلی سیکٹر کی بہتری سمیت5 معاملات پر کام کرنا ہوگا: آئی ایم ایف

اسلام آباد (عترت جعفری) آئی ایم ایف نے فسیکل فیڈرل ازم کو پاکستان میں ریونیو کی بیس کی کمزوری کی اہم وجہ قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس قوانین کی عدم پیروی، کرپشن کی روک تھام کی ادھوری کوشش، ٹیکس رعایات بھی وجوہات ہیں۔ یہ ورثہ میں موجود چیلنجز ہیں۔ فسیکل فیڈرل ازم ان کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں نااہلیت کی بھی وجہ ہے۔ ملک کے اندر  دس سے زائد ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ریونیو کی اصلاحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ادارے نے کہا کہ پاکستان کا پبلک ڈیٹ 2026ء میں جی ڈی پی کے ستر فی صد کے مساوی ہو جائے گا۔ پاکستان کو پانچ پالیسی معاملات میں کام کرنا چاہئے۔ ان میں بجلی کے سیکٹر کو بہتر بنانا، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کے تحت کنٹرول کرنا، اخراجات میںکمی شامل ہیں۔ دریں اثنا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ بجٹ میں اٹھائے جانے والے اقدامات پر مارچ میں بات چیت  کرنے  پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اسی بات چیت میں قرض  پروگرام کا ساتواں ریویو بھی ہو گا۔ ایف بی آر اور وزارت خزانہ دونوں نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ساتویں ریویو میں جو طے ہو گا وہ بجٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔ چھٹے ریویو کی رپورٹ اس وقت تک جو اشارے موجود ہیں ان کے مطابق حکومت پاکستان نے یہ لکھ کر دیا ہے کہ پرسنل انکم ٹیکس بھی بڑھے گا۔ اس وقت انکم ٹیکس  کی مد میں 378ارب روپے کی رعایات موجود ہیں۔ بات چیت میں یہ طے کیا جائے گا کہ ان میں سے کتنی ٹیکس رعائتیں بجٹ میں واپس لی جائیں گی۔ ان کا بوجھ ٹیکس گزار کی جانب منتقل ہو گا۔ پروگرام کے باقی دو ریویو  جون اور ستمبر میں ہوں گے۔  اس رپورٹ  میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آئی ایم ایف کو ادائیگی2024ء میں عروج  پر جائے گی، اس سال 1292ملین ڈالر (ایس ڈی آر) کی ادئیگی کرنا ہو گی۔ آئندہ سال یہ 776ملین ڈالر (ایس ڈی آر) ہے۔ اس وقت تعلیم کے لئے خرچ 3.9فیصد (جی ڈی پی) ہے اسے بڑھا کر5.7فیصد کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس سال26  ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔ اس میں سے چین سے6.6ارب ڈالر، یو اے ای سے 2ارب ڈالر، ورلڈ بینک سے 2ارب ڈالر اور اے ڈی بی سے 1.5ارب ڈالر ملے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یہ بتایا ہے کہ وزرات خزانہ میں سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں کی نگرانی کے لئے مئی تک ایک سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا جائے گا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یہ بھی بتایا ہے کہ فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گرین سکوک، شریعہ سکوک، جینڈر بانڈ، پانڈا بانڈ جاری کئے جا سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو یہ بتایا گیا ہے کہ اس وقت جی ایس ٹی میں جو رعایات موجود تھیں ان  کا60فیصد واپس لیا گیا ہے جبکہ باقی 40فیصد رعایات میں سے 25فیصد کا تعلق کھاد، کرم کش ادویات اور ٹریکٹرز سے ہے۔ ان زرعی ان پٹس کو بھی 2023تک ٹیکس کر دیا جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن