کپتان عمران خان تین برس بعد میدان میں دوبارہ اتر آئے
ندیم بسرا
انگریزی زبان کا محاورا "Beginning of the end "۔ جس کا عام ترجمعہ یہی کیا جاتا ہے کہ انجام کا آغاز۔ویسے اس نام کی ایک ہالی ووڈ کی فلم 1957 میں آچکی ہے جو ایک ڈراونی فلم تھی اس میں پیٹر گرویوز اور پیگی کاسل نے بڑے اچھے کردار نبھائے تھے۔میں آج اس فلم کی کہانی نہیں بتاونگا ،بلکہ میں پاکستان کی سیاست میں اب’’انجام کا آغاز‘‘ کی فلم شروع ہونے جارہی ہے اس پر ہی بات کرونگا۔کپتان عمران خان میدان میں تین برس بعد دوبارہ اتر آئے ہیں۔ اس اقدام سے پی ٹی آئی کا عوام کے ساتھ دوبارہ رابطہ بحال ہوگا اب اس اقدام یا وزیراعظم کو یہ مشورہ ان کے کسی قریبی نے دیا ہے کہ وہ خود میدان میں اتریں یا کپتان نے حالات کا اندازہ لگایا ہے۔کہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عوام کے پاس جائیں تو پھر عوام انہیں قبول کریں گی یا نہیں ؟۔ تو اس سے پہلے عوامی رابطہ مہم تیز کی جائے کہیں دیر نہ ہو جائے۔اس سے یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس سے اپوزیشن کے بڑھتی پیش قدمی تھوڑی سی رک جائے ؟۔یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم سے جو" خاص حلقے" ناراض ہورہے ہوں ان کو یہ جواب دینا کہ میں کمزور نہیں ہوں اور عوامی تائید مجھے اب بھی حاصل ہے۔دوسری طرف اسی عوامی تائید کو حاصل کرنے کے لئے سندھ میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پنجاب میں دو جماعتوں ن لیگ اور ق لیگ سے ملاقاتیں کررہی ہیں۔آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو، اور ایم کیو ایم کے عامر خان ،وسیم اختر علیحدہ علیحدہ شہباز شریف ،مریم نواز ، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی سے مل چکے ہیں۔پنجاب جو ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرتارہا ہے لگ یہی رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔اب یہ بھی اہم سوال ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کیا سوچ رہے ہیں کیا وہ ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے اپنے راز ایک دوسرے سے شئیر کریں گے یا اپنے تاش کے پتے زرداری کی طرح سینے سے لگا کر رکھیں گے۔کیونکہ ان ہائوس تبدیلی کے لئے بڑی قربانی دینا پڑے گی وہ قربانی کونسی جماعت دیتی ہے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ویسے سیاست کا اصول ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چلتا ہے۔سیاسی کھانے،ملاقاتیں بلاوجہ نہیں ہوسکتی اس کے پیچھے کئی چالیں چھپی ہوتی ہیں اب چونکہ پنجاب محور مرکز بن گیا ہے تو کیا اس کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے پی ٹی آئی پنجاب کی صدارت کی پگ چودھری شفقت محمود کو باندھی تھی اور سیکرٹری اطلاعات مسرت جمشید چیمہ کے حوالے کی ہے۔چودھری شفقت محمود ایک زیرک اور پڑھے لکھے سیاست دان ہیں ان کی گفتگو ہی ان کے اچھے سیاست دان ہونے کا ثبوت ہیں۔پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے سابق صدر اعجاز چودھری کی اگر تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی انہوں نے پارٹی کی مضبوطی کے لئے نچلی سطح تک کام کیا۔یہ کہا جارہا ہے اب چودھری شفقت محمود اضلاع کی سطح پر پارٹی کے عہدیداروں کا چنائو کررہے ہیں تو ان بہت سے پہلے سے تیار شدہ اور چودھری اعجاز کے ٹرینڈ ورکرز بھی شامل ہیں۔چودھری شفقت محمود پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے اور جس طرح وہ پارٹی کی میٹنگ کررہے ہیں میرا خیال ہے کہ 2023 سے قبل اور اگر اس سے قبل بلدیاتی انتخاب پنجاب میں ہوتے ہیں تو ان کے پاس ایک مضبوط ٹیم موجود ہوگی۔سیکرٹری اطلاعات مسرت جمشید چیمہ جو ایک با صلاحیت اور پڑھی لکھی خاتون ہونے کے ساتھ سیاسی ورکر بھی ہیں اور عمران خان کا ان پر اعتماد کسی سے ڈھکہ چھپا نہیں۔پارٹی کی پالیسی کے مطابق وہ دن رات محنت کرتی نظر آتی ہیں وہ پارٹی میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کی قائل ہیں ان کا ماننا ہے کہ پارٹی ورکرزنظر انداز نہیں ہونے چاہئے اسی وجہ سے وہ پارٹی کے سبھی کارکنوں سے خود رابطے کررہی ہیں۔نوائے وقت سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک نظریاتی ورکرز کی جماعت ہے۔ہم چھ اضلاع میں پارٹی عہدیدار کا چنائو کرچکے ہیں فروری کے آخر تک پنجاب کے سبھی اضلاع میں عہدہدار منتخب کئے جا چکے ہونگے۔اب اس سلسلے میں پارٹی ورکرز کنونشن کئے جارہے ہیں۔پورے پنجاب میں پارٹی عہدے میرٹ پر دیئے جائیں گے۔اب پنجاب چونکہ مرکز نگاہ ہے تو یہاں کی انتظامی صورت حال کو بھی سمجھنا چاہئے۔چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل وہ مکمل طور پر متحرک نظر آتے ہیں۔وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت پر صوبے کے طول وعرض کے دورے کررہے ہیں۔غالبا وہ پہلے چیف سیکرٹری ہیں جوجنوبی پنخاب کے ان اضلاع میں گئے ہیں جہاں پہلے کوئی چیف سکرٹری نہیں گیا۔اس کے علاوہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی بہترسروس ڈیلیوری ان کی ترجیح مین شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بہاولپور کی بلڈنگ کے لئے400 کنال اراضی الاٹ کردی گئی ہے، جنوبی پنجاب کے لئے189 ارب روپے بجٹ میں مختص کئے گئے ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر45 فیصد بجٹ خرچ کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب کے11 اضلاع میں 1541ترقیاتی منصوبے تیار کئے گئے ہیں،1441 ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے اور87 فیصد سکیموں کے ورک آرڈر بھی جاری ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اشیا ئ ضروریہ کی مقررہ نرخوں پر دستیابی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔کسانوں کو کھاد کی فراہمی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ کھاد کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے خصوصی اقدامات کئے گئیہیں۔بارڈر پر سخت انتظامات کئے گیے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چیف سیکرٹری پنجاب اپنی محنت سے اور افسران سمیت تمام انتظامیہ سے مسلسل رابطے اور کڑی نگرانی سے سسٹم کی بہتری کی جانب گامزن ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔۔۔