کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مر حلہ
راجہ محمد منیر خان
صوبہ کے پی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اب دوسرے مرحلے کے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے پہلے مرحلے میں صوبے کے عوام نے گھروں سے نکل کر گردن توڑ مہنگائی، جان لیوا بیروزگاری ،آخری درجے کی لاچارگی، انتہاپسندی، ناامیدی اور لاقانونیت کے خلاف عہدِ حاضر کے حکمرانوں کو اپنا خاموش احتجاج ریکارڈ کروا دیا۔۔۔۔!اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے مرحلے کے کیا نتائج نکلتے ہیں اس کیلئے حکمران جماعت نے اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ میدان میں نکل چکی ہے دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن جیتنے کیلئے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں ھزارہ ڈویڑن کے ضلع ایبٹ آباد۔مانسہرہ۔بٹگرام۔تورغر۔اپر کوہستان۔لوہر کوہستان میں دوسرے مرحلے میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں جس طرح حکمران جماعت الیکشن جیتنے کیلئے میدان میں ہے اسی طرح حزب اختلاف بھی میدان میں ہے اس وقت دونوں بڑی جماعتیں گروپ بندی کے باعث اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کر چکی ہیں اگر اس گروپ بندی سے بڑی سیاسی جماعتیں نہ نکل سکیں تو ان کو اپنا وجود بچانا نا ممکن ہو جائیگا دوسری جانب حزب اختلاف کی ھزارہ ڈویڑن کی قیادت ایک دفعہ پھر صوبہ ھزارہ کا نعرہ لگا کر عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے اور الیکشن جیتنے کیلئے صوبہ ھزارہ بنانے کیلئے نکل پڑی ہیں ھزارہ کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی وممبران سینٹ جن میں سابق وفاقی وزیر و چیئرمین صوبہ ھزارہ تحریک سردارمحمدیوسف سابق ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت سیکرٹری جنرل احسن اقبال سابق وفاقی وزرائ آفتاب شیخ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ممبران قومی اسمبلی گوہر بلوچ سینئر پیر صابر شاہ طلحہ محمود۔سابق ممبران قومی و صوبائی اسمبلی میاں ضیاء الرحمن مظہر علی قاسم سردار ظہوراحمد سردامشتاق ڈاکٹر فضل چوہدری سمیت مولانہ عبدالمجید ہزاروی اور دیگر نے پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا سوال یہ ہے جب مسلم لیگ کی حکومت تھی اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کو دوتہائی اکثریت بھی حاصل تھی اس وقت انہیں قرارداد جو صوبائی اسمبلی سے پاس ہو کر گئی تھی وہ کیوں یاد نہ آئی دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اقتدار سے باہر تھی وہ بھی نئے صوبوں کی بات کرتی تھی اب مسلم لیگ حکومت سے باہر ہے وہ صوبوں کی بات کر رہی ہے اس لئے یہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں عوام کو بیوقوف بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں اور کوئی سیاسی جماعت بھی نئے صوبوں کے قیام کیلئے مخلص نہیں ہے۔ سب اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں کوئی صوبوں کے قیام کیلئے مخلص نہیں ہے پہلے ق لیگ موجود پی ٹی آئی صوبہ ھزارہ بنا رہی تھی اب مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں جو پہلے ق لیگ اورپی ٹی آئی کے ساتھ تھی اب ن لیگ کے ساتھ ہیں تاکہ انہیں بھی الیکشن میں حصہ مل سکے وہ صوبہ ہزارہ بنانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں ایسے حالات میں عوام کو فیصلہ کرنا ہے۔پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے اپنے خطاب میں کہا کہ اب صوبہ ھزارہ کے قیام کیلئے ھزارہ بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے اس سلسلے میں صوبہ ھزارہ تحریک کے زیراہتمام کراچی داود چورنگی میں سردار محمد یوسف اور دیگر ھزارہ کی قیادت نے جلسہ کرکے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے ان کا کہنا تھااگر ان احتجاجی مظاہروں کے باوجود صوبہ ھزارہ کی قرارداد پر عمل نہ ہوا تو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں گے۔کیا اب یہ حزب اختلاف کا سٹنڈ بلدیاتی انتخابات میں کیا نتائج دے پائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر پرویز خٹک نے بھی لنگوٹ کس کر میدان میں نکل چکے ہیں اور ان اضلاع میں جن میں دوسرے مرحلے میں انتخابات ہونے ہیں ان اضلاع میں پارٹی میں موجود گروپ بندی کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آرہے ہیں۔کیا وہ پارٹی اختلافات ختم کر پائیں گے پارٹی میں جنگ نظریاتی کارکنوں اور دیگر جماعتوں سے آئے ہوئے حکمرانوں سے ہے پارٹی صدر بھی اسی گروپ سے ہیں۔جو پارٹیاں تبدیل کرنے والا گروپ ہیوہ وزیراعلٰی کے پی کے محمودخان کے ہمراہ ھزارہ ڈویڑن کے دورہ کے موقع پر ضلع مانسہرہ ہری پور اور ضلع ایبٹ آباد میں ہونے والیورکر کنونشن میں شرکت کرکے پارٹی سے گروپ بندی ختم کرنے کی کوشش میں اپنی تقریر کے دوران ھزارہ کے عوام کو بدتمیز کہہ کر نیا محاذ کھول دیا یوں تو وزیراعلٰی کا ورکر کنونشن میں آمد اور ترقیاتی منصوبوں کا اعلان عملی طور پر دھاندلی کی بنیاد ہے۔کیا الیکشن کمیشن نوٹس لیں گے یا نہیں یہ سوالیہ نشان ہے پرویز خٹک بھی صوبائی صدر کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر دفاع بھی ہیں۔وزیراعلٰی سپیکر وفاقی و صوبائی وزرائ کی شرکت کیا دھاندلی کی بنیاد نہیں۔۔۔۔۔۔؟ حسب روایت پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنان اور چھاتہ بردارمیں ہلڑ بازی اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی جس سے پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے پارٹی کے صوبائی صدر پرویز خٹک بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کے ہیں اور ان کے نزدیک نظریات کچھ نہیں ہیں انھوں نے صوبہ میں اپنا مضبوط گروپ بنا رکھا ہے جن پر خصوصی دست شفقت کا ہاتھ بھی ہے ،ایبٹ آباد میں بھی ان کے گروپ کے لوگ برسراقتدار ہیں ایسے حالات میں پارٹی کے اندر ھزارہ سمیت صوبہ کے پی کے میں اختلافات ختم کر پائیں گے اختلافات ختم کرنے کیلئے آنے والے صوبائی صدر پرویز خٹک نے ورکر کنونشن میں ھزارہ کے عوام کی تذلیل کرتے ہوئے ان کیلئے توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرکے پی ٹی آئی کے تابوت میں کیل ٹھونک دی ہے۔ جس پر ھزارہ کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے ان کی اس بیہودہ تقریر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتیں صف آرا ہوچکی ہیں مسلم لیگ ن ضلع ایبٹ آباد نے شدید بارش کے باوجود احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ ھزارہ کے عوام کی تذلیل کرنے پر معافی مانگیں مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ تمام مذاہبی وسیاسی جماعتوں وسول سوسائٹی بھی ان کے ھزارہ کے عوام کے لئے توہین آمیز الفاظ کی مذمت کررہے ہیں اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔پارٹی کو ایک جگہ متحد کرنے کے بجائے انہوں کے پارٹی کے لئے نیا محاذ بھی کھول دیا ہے عوام پہلے ہی مہنگائی بیروزگاری کے باعث پی ٹی آئی کی حکومت سے نالاں ہیں جس کا اظہار انہوں ہے پہلے مرحلے کے انتخابات میں کر دیا ہے حکومتی وسائل اور من پسند عملہ کی تعیناتی ترقیاتی کاموں کی لالچ کے باوجود عوام نے انھیں مسترد کیا ہے۔اب ھزارہ کے عوام کیلئے توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے پارٹی کیلئے نفرت کا نیا بیج بو دیا ہے۔ھزارہ کے عوام محب وطن تحریک پاکستان کی تحریک سے لیکر صوبہ سرحد کو پاکستان میں ریفرنڈم کے ذریعے شامل کرنے تک کی جدوجہد تک کھڑے رہے۔ان کیلئے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنا یہ کس طرف اشارہ ہے ھزارہ کے عوام طویل عرصے تک مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے رہے اور پہلی دفعہ پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی دلائی مسلم لیگ نے ھزارہ کے عوام کی ہمیشہ قدر کی لیکن دو الیکشن جیتنے والی تحریک انصاف کی جانب سے توہین آمیز الفاظ استعمال یہ ثابت کر ر ہا ہے کہ اٹک پار کے وہ لوگ آج بھی ھزارہ کے عوام کے ساتھ 1948 کے ریفرنڈم کی شکست نہیں بھولے ہیں اور آج بھی وہ اپنی وہ دشمنی جاری رکھے ہوئے ہیں پرویز خٹک عوامی نیشنل پارٹی سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں اور ھزارہ کے دورہ کے موقع پر انکی وہ دشمنی جاگ گئی ہے اور انہوں نے اس لئے ھزارہ کے عوام کی تذلیل کی ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن جس نے پہلے مرحلے میں صوبہ کے پی کے کیتمام اضلاع میں شکست کا سامنا کرنا پڑا صرف ضلع ہری پور میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی اور ھزارہ ڈویڑن کے ساتھ جڑے ہوئے ضلع صوابی میں بھی ایک سیٹ پر کامیابی ملی اب دوسرے مرحلے میں کیا نتائج آتے ہیں مسلم لیگ ن کیا اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر پائے گی اس مرحلے میں مسلم لیگ ن کیصوبائی صدر امیر مقام کے اور صوبائی جنرل سیکرٹری مرتضی جاوید عباسی کے آبائی ضلع میں ہی نہیں ڈویڑن میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ضلع ایبٹ آباد میں مسلم لیگ ن گروپ بندی کا شکار ہے سردارمہتاب احمد خان خان اور مرتضٰی جاوید عباسی آپس میں صف آرا ہیں اس کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہو سکتا ہے۔اگر ہم 2000 کے بعد سے سردارمہتاب احمد خان کے پارٹی فیصلوں کا جائزہ لیں تو ان کے غلط فیصلوں سے ھزارہ ڈویڑن جسے مسلم لیگ کا گڑھ کہا جاتا تھا اس میں تحریک انصاف کو نقب لگانے کا موقع ملا ہے ضلع مانسہرہ میں سردار محمد یوسف اور کیپٹن ر صفدر کی وجہ سے انہیں نقب لگانے کا موقع نہیں مل سکا ہے جس سے مسلم لیگ اب تک مضبوط ہے جبکہ ایبٹ آباد میں پارٹی کو تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں 25 سالہ دور اقتدار میں سردارمہتاب احمد خان نے ضلع ایبٹ آباد کے عوام کو مایوس کیا اب انہیں عوام میں اس طرح کی پذیرائی حاصل نہیں ہے ۔ 2018 میں بھی مسلم لیگ ن کے اوپر مشکل وقت میں ایک دفعہ پھر راہ فرار اختیار کرنے اور پارٹی ٹکٹ واپس کرنے کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی مخالفت کی اب بلدیاتی انتخابات میں بھی وہ اپنی اس روش کو اپناتے ہوئے ہیں پارٹی میں گروپ بندی اورصوبہ کے دیگر اضلاع میں مسلم لیگ ن کی شکست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی قیادت کے قریب آنے کی کوشش کر رھے ھیں لیکن پختون بیلٹ میں مسلم لیگ ن کو اس حالت میں کون لیکر آیا یہ سوالیہ نشان ہے 1997 میں مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت جس میں سردارمہتاب احمد خان وزیراعلٰی بنے تو ان کی حکومت میں صوبہ سرحد کے نام تبدیلی کی قرارداد منظور ہوئی تو ھزارہ میں مسلم لیگ کو نقصان کی بنیاد رکھی گئی اس کے بعد مسلم لیگ ھزارہ میں وہ مقام نہ حاصل کر سکی جو اسے حاصل تھا صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں میں مسلم لیگ کے حصہ میں 18 نشتیں آتی تھیں وہ سکڑ کر 6 سے7 سیٹوں پر آگئی اس کے اثرات پختون بیلٹ میں بھی پڑیاور مسلم لیگ پختون بیلٹ میں جو چند اضلاع تک محدود تھی اس کا وجود بھی انہوں نے ختم کر دیا اب پختون بیلٹ میں اس کا فائدہ تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں نے حاصل کر لیا اور اب مسلم لیگ ن اپنا وجودپختون بیلٹ میں دوبارہ حاصل کرنے میں بھرپور کوشش کے حاصل نہیں کر سکتی ہے۔مرتضی جاوید عباسی نے صوبائی جنرل سیکرٹری بننے کے بعد پارٹی کو صوبہ کے پی کے میں مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں روٹس لیول سے تنظیم سازی اور عوام میں مسلم لیگ ن کی جڑیں بنانے کی کوشش کر رھے ھیں۔ اب دوسرے مرحلے میں کیا مسلم لیگ ن مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتی ہے یا گروپ بندی کے باعث ھزارہ کے صدر مقام ایبٹ آباد میں مسلم لیگ ن اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے یا اس گروپ بندی کے باعث باقی صوبہ کی طرح ہی نتائج ہونگے ۔