وزیر اعظم عمران خان کا دورہ چین
عترت جعفری
سی پیک پاکستان کے لئے لائف لائن کا درجہ رکھتا ہے ،اگرچہ اس کے بارے میںبہت بار ایسی افواہیں پھیلائی گئیں کہ اس پر عمل درآمدمیں تاخیر ہو رہی ہے ، اس کے منصوبے سست روی کا اشکار ہیں ،یا اس کی وجہ سے پاکستان پھر ڈیٹ ٹریپ میں داخل رہا ہے تاہم حقائق اس کے بر عکس ہیں ،وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے اس تاثر کی تردید ہوتی ہے کہ سی پیک پر عمل میں کوئی تاخیر ہو رہی ہے بلکہ سی پیک منصوبہ اپنے اگلے فیز کے اندر داخل ہو چکا ہے ،چین میں صنعتی تعاون کے فرویم ورک معاہدہ پے دستخط کئے گئے ہیں ،جس کے لئے تمام تیاری سرمایہ کاری بورڈ نے کی تھی ،اسی طرح سی پیک اتھارٹی کے چئیر مین خالدمنصور نے اپنی پریس کانفرنس میں جب سی پیک کے مختلف پہلو بیان کئے تو انہوں نے بتایا کہ اربو ں ڈالر کی مزید سرمایہ کاری پاکستان میں آئے گی ،سی پیک کے تحت سرمایہ کاری وصنعتی کے زون پر کام آگے کی جانب بڑھا ہے ،رشکئی کا سرمایہ کاری زون اب تکمیل کی جانب بڑھنا شروع ہو چکا ہے ،وزیر اعظم نے چین میں سینکڑوں چینی مینو فیکچرنگ کمپنیوں کے سی ای اوز سے ملاقات کی اور ان کوا پنی صنعتیں پاکستان میں ریلوکیٹ کرنے کے لئے پاکستانی حکومت کے مدد کے اقدامات کے بارے میں بتایا ،اسی چینی دورے کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اسی کے دوران پاکستا ن اور روس کے درمیان اعلی سطح پر رابطہ ہو اور اب وزیراعظم آئندہ ماہ روس کے دورے پر بھی جانے والے ہیںپاکستان کے لئے فوڈ سکیورٹی بہت اہم ہو چکی ہے ،22کروڑ آبادی کے اس ملک کی دستیاب زمین کو زرعی پیداوار کے لئے بہترین انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ر ہے اس کے لئے سی پیک ہی کے تحت تعاون کے راستے کھولے جا رہے ہیں تاکہ پاکستان زراعت میں چین کی جد ت سے ا ستفادہ کر سکے،دریں اثنا ا پوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے دورہ چین کو لے کر تنقید کی جا رہی ہے لیکن خطے اور دنیا کے موجودہ حالات میں یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،ایک طرف پاکستان میں سی پیک کا فلیگ شپ منصوبہ سی پیک چین کے تعاون سے آگے بڑھ رہاہے تو دوسری طرف افغانستان کی بدلتی ہو ئی صورتحال میں خطے کے دو اہم ممالک پاکستان اور چین کے سربراہان کا آپس میں مل بیٹھنا خاص اہمیت رکھتا ہے وزیر اعظم اگرچہ چین میں ہو نے والے سرمائی اولمپکس کی تقریب میں شرکت کے لیے چین گئے تھے لیکن چینی قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں دو طرفہ تعاون سمیت خطے اور عالمی حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا ،دونوں ملک سمجھتے ہیں ہیں کہ ان کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے خطے میں استحکام ہے، اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور کسی حد تک چین کا بھی مسئلہ ہے وہ بھارت ہے،دونوں ملک بھارت کے ساتھ تمام اختلافات سیاسی بات چیت سے حل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن بدقسمتی سے بھارت میں ایک ایسی حکومت ہے جو انتہا پسند قوم پرست ہے اور آج تک کبھی بھارت میں اس طرح کی حکومت نہیں آئی۔ پاکستان اور چین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی قوم نے اتنے مسائل کا سامنا نہیں کیا جتنا افغان عوام نے کیا ہے، 40سال سے افغانوں نے صرف جنگ دیکھی ہے اور پہلی مرتبہ امن کا موقع ہے کہ اس وقت افغانستان میں کوئی تنازع نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہاں انسانی المیہ رونما ہورہا ہے کیوں کہ افغانستان کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر رہا ہے۔ جب بیرونی امداد بند ہوگئی تو پوری حکومت ایک تشویشناک بحران میں ہے وہ خدمات فراہم نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں ہے اور ان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی منجمد ہیں۔ چین، پاکستان اور بہت سے دیگر ممالک بشمول یورپی ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طالبان حکومت کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کو ایک جانب رکھتے ہوئے ذہن میں صرف 4کروڑ افغان عوام کو رکھا جائے جن میں سے نصف غذائی عدم تحفظ کی بدترین صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن)کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی(سی ای سی)کا ہونے والا اجلاس پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں ناکام رہا اور یہ فیصلہ پارٹی قائد نواز شریف پر چھوڑ دیا کہ جب وہ مناسب سمجھیں اس کی کال دیں۔ اجلاس دوران نواز شریف نے اجلاس کے شرکا سے کہا کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے سڑکوں پر آنے کی تیاری کریں۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے عمران خان کی قیادت میں پاکستان کو کرپٹ ترین ملک قرار دیا ، لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج کے سی ای سی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)عمران خان کی اس جابر حکومت سے نجات دلائے گی جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔دوسری جانب ان کی بیٹی اور مسلم لیگ(ن)کی نائب صدر مریم نواز ایک ٹوئٹ میں کہا کہ عوام کی حالت زار اور حکومت کی نااہلی اور ہر شعبے میں ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے، پارٹی میں اتفاق رائے ہے کہ عمران خان کی حکومت کو جانا ہے۔مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی، پارٹی قائد کو پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پی پی پی کی تحریک عدم اعتماد اور اسلام آباد پر مشترکہ لانگ مارچ کی تجاویز سے آگاہ کیا۔ کچھ سینئر ممبران نے بہت 'مختصر' بات کی اور نواز شریف کو بتایا کہ پوری پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ عدم اعتماد کے اقدام پر جو بھی فیصلہ کریں گے اس پر عمل ہوگا۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے شرکا سے کہا کہ وہ احتجاج کے لیے تیار ہو جائیں، ساتھ ہی سیکریٹری جنرل احسن اقبال کو ہدایت کی کہ وہ پارٹی کے اراکین اسمبلی کے لیے ورکنگ پلان تیار کریں تاکہ وہ اپنے حلقوں سے لوگوں کو سڑکوں پر لا سکیں۔تاہم نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز کے بارے میں کوئی تفصیلات طلب نہیں کیں نہ یہ کہ کیا اپوزیشن کو یہ اقدام اٹھانے کے لیے مطلوبہ اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن)پی ٹی آئی کے 20سے زائد منحرف ایم این ایز سے رابطے میں ہے اور پیپلز پارٹ جہانگیر خان ترین گروپ کے ساتھ رابطے میں ہے جس میں مبینہ طور پر 30رکن صوبائی اور 8اراکین قومی اسمبلی شامل ہیں۔اس کے علاوہ، اپوزیشن حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔جبکہ مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ انشااللہ تحریک عدم اعتماد آئے گی اور ماحول جلد تبدیل ہوگا۔ نام نہاد احتساب کے نام پر کیس کو چوتھا سال ہے لیگی رہنما نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے اور نمبر پورے ہو جائیں گے، انشااللہ تحریک عدم اعتماد آئے گی، تحریک عدم اعتماد کی تشہیر نہیں کی جاتی، یہ تب لائی جاتی ہے جب نمبر گیم مکمل ہوں، انشااللہ جلد ماحول تبدیل ہوگا۔پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے چوہدری برادران سے ملاقات کی ہے ان کی ملاقات کا مقصد پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جاری پیپلز پارٹی کی تحریک کے حوالے سے حمایت حاصل کر نا تھا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدریوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کو پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بن سکتے، کیونکہ وہ حکمران جماعت کے اتحادی ہیں اور مسلم لیگ (ق(اور پی ایم ایل این کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔ آصف علی زرداری لاہور میں چوہدریوں کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے چوہدری شجاعت کی عیادت کی، جو کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور چند ہفتوں پہلے ہی صحتیاب ہوئے ہیں۔ملاقات کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی، وفاقی وزیر مونس الہی اور طارف بشیر چیمہ، ایم این اے چوہدری سالک حسین، شافع حسین رخسانہ بنگش بھی موجود تھے۔آصف علی زرداری نے چوہدریوں کی رہائش گاہ پر دو گھنٹے گزارے اور عشائیہ میں بھی شرکت کی۔چوہدری برادران سے طویل ملاقات کے دوران آصف علی زرداری، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کے درمیان موجودہ سیاسی حالات اور مشترکہ مفادات سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے ق لیگ کے رہنماں کو آگاہ کیا کہ وہ اپوزشن کی حکومت کے خلاف تحریک میں شریک ہوں، کیونکہ حکومت گورننس، مہنگائی پر قابو پانے سمیت تمام محازوں پر ناکام ہوچکی ہے اور لوگوں کو دیوار سے لگادیا گیا ہے۔آصف علی زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی حکمران جماعت کے خلاف ابتدائی طور پر پنجاب سے عدم اعتماد تحریک چلانا چاہتی ہے اور بعدازاں مرکز حکومت کو اختتام کی طرف دھکیلا جائے گا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی ایم ایل(ق)حکومت کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کرے۔ذرائع یہ بھی کہنا تھا کہ پی ایم ایل(ق)کی جانب سے حکومت کو ہٹانے سے متعلق تجویز پرگرم جوشی کامظاہرہ نہیں کیا گیا کیونکہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پی ایم ایل این نے پی ایم ایل(ق)کی حمایت کے لیے کبھی براہِ راست رابطہ نہیں کیا۔اتحادی جماعت نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک پر پی ایم ایل این کے رہنماں کی سنجیدگی پر سوال اٹھایا، عدم اعتماد تحریک کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹرز کی بڑی تعداد درکار ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری برداران نے آصف علی زرداری سے کہا کہ وہ جمہوریت اورملک کو سیاسی بحران سے بچانے کے لیے روڈ میپ فراہم کریں ۔چوہدری برادران نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سے اتفاق کیا کہ انہیں بعد میں بھی ان سے ملاقاتیں جاری رکھنی چاہیے، وہ اب لاہور میں مقیم ہیں اور پنجابی بھی سیکھ چکے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عامر خان اور وسیم اختر نے چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ جاکر ان کی عیادت کیاورموجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ملاقات کے بعد میڈیا سے مشترکہ گفتگو کرتے ہوئے پرویزالہی نے کہا کہ آج ایم کیو ایم کے دوست آئے ہیں ، ہم حکومت کے اتحادی ہیں، مسائل پہلے آپس میں ڈسکس کرتے ہیں پھر حکومت کو پہنچاتے ہیں۔چوہدری پرویزالہی نے کہا کہ آج کی میٹنگ بھی اسی حوالے سے تھی، کوشش ہے کہ بلدیاتی الیکشن پر اپوزیشن کو ملا کر شق وار بات کریں اور بلدیاتی الیکشن میں متفقہ طور پر اسمبلی میں جائیں