آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے عوام کو مزید خوفزدہ کر دیا
سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
ملک میں مہنگائی کا تسلسل برقرار ہے، تجارتی خسارہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت کے دعوے ہیں کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے ایکسپورت میں اضافہ ہوا، لیکن دوسری جانب وہ عوام کو یہ نہیں بتا رہے کہ امپورٹ میں بھی ایکسپورٹ کے مقابلے دوگنا اضافہ ہوا ہے جس سے تجارتی خسارہ خطرنات حد تک بڑھ چکا ہے۔ غریب عوام کیلئے مہنگائی کا عزاب مزیر قہر ڈھا رہا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتہ کم آمدنی والے طبقے کیلئے مہنگائی 21 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے کی چھٹی قسط وصول کرنے کیلئے منی بجٹ پیش کیا جس میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا متنازعہ بل بھی منظور کرایا گیا۔ جس طرح اسمبلی سے یہ بل منظور ہوا اس پر پہلے ہی بہت بحث ہوچکی ہے اور سینیٹ میں جس طرح اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت ہونے کے باوجود حکومت بل منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ یہ اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ تاہم حکومت اپنے عزائم میں کامیاب رہی اور اسمبلی اور سینٹ سے منی بجٹ، اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کر لئے گئے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط پوری کرنے کے بعد پاکستان کو 1 ارب ڈالر کے قرض کی قسط جاری کردی گئی۔ جبکہ اب عالمی مالیاتی اداری کی جانب سے حکومت کو ایک بار پھر ڈو مور کی ہدایت دی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کی قسط جاری کرتے ہی نئی شرائط رکھ دی گئیں جس میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، غریب عوام کو دستیاب سبسڈی ختم کرنے اور مزید شرائط میں آئی ایم ایف کے مطابق ذاتی انکم ٹیکس کے حوالے سے ا?ئندہ بجٹ میں ٹیکس دہندگان کیلئے خصوصی ٹیکس پروسیجر متعارف کرایا جائے۔ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ تعمیراتی اور ہائوسنگ سیکٹر کی ترقی کیلئے اسٹرٹیجی پیپر مرتب کیا جائے۔ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کے حوالے سے فیٹف کے باقی نکات پر عملدرآمد مکمل کیا جائے تاکہ گرے لسٹ سے نکلا جا سکے۔ گیس کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں۔ بجلی کے شعبے میں سبسڈی میں مزید کمی کی جائے۔ غریب لوگوں کو سبسڈی دینی ہے تو احساس پروگرام کے ذریعے دی جائے۔اسی دوران آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں سال مہنگائی میں مزید اضافہ کی توقع ہے جبکہ شرح نمو 4 سے 5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ ا?ئی ایم ایف کی رپورٹ میں پاکستان کے اگلے بجٹ میں 430ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کی اطلاع دی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگلے سال کا ترقیاتی بجٹ بھی 627ارب روپے سے کم کر کے 554ارب روپے کر دیا جائے گا۔ رواں مالی سال کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ کر 12ارب 99کروڑ ڈالر متوقع ہے جو جی ڈی پی کے 4فیصد کے مساوی ہو گا۔ ایف بی ا?ر نے انکم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ ترجمان وزارت خزانہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوئی بری بات نہیں۔ ا?ئی ایم ایف نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے اور کہا ہے کہ ا?ئندہ 12ماہ میں یہ شرح 9سے 12فیصد تک رہے گی۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ درا?مدات میں اضافہ ہو گا اور ترسیلات زر میں بھی کسی قدر کمی ا?ئے گی۔
آئی ایم ایف کی نئی شرائط سے عوام کو مزید خوفزدہ کر دیا ہے کیونکہ ملک میں لوگوں کی اکثریت پہلے ہی مہنگائی اور قوت خرید انتہائی کم ہونے کے باعث شدید مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اس پر مزید مہنگائی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور ٹیکسوں کی بھرمار کیسے برداشت کریں گے۔ بظاہر حکومت کا نصب العین آئی ایم ایف شرائط کی تکمیل ہے چاہے اس کے لئے عوام کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ غریب طبقہ حکومت کی پالیسی سے سخت نالاں ہے، حکومت اپنا کرپشن کا خاتمہ جو منشور میں لے کر آئی تھی وہ پورا نہیں کر سکی۔ حکومت کی جانب سے بلند و بانگ دعوے تو کئے گئے لیکن تین سال گزرنے کے باوجود آج تک حکومت کرپشن کا کوئی بھی الزام ثابت نہ کر سکی اور نہ ہی کرپشن کی رقم واپس لا سکی۔ جبکہ دوسری جانب کرپشن کے خاتمے کے چکر میں بچی کچی معیشت بھی خطرے میں پڑ گئی۔ عوام کی شکایت ہے کہ حکومت کو عوام کی پرواہ نہیں، نہ ہی حکومت کی جانب سے شدید مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے، البتہ حکومت مہنگائی میں اضافہ کرنے، غریب کی مشکلات بڑھانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہی۔ ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ اپنی کارکردگی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ یا یوں کہیں کہ حکومت کی اپوزیشن اس کی اپنی ناقص کارکردگی ہے ، جس پر خدشہ ہے کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں عوام اس حکومت کو بھی مسترد نہ کردے۔۔