تحریک عدم اعتماد سیاسی کھیل میں اعصاب کی جنگ بہتر فیصلے والا جیتے گا تجزیہ محمد اکرم چودھری
اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سیاسی کھیل میں یہ اعصاب کی جنگ ہے۔ دباؤ میں بہتر فیصلے کرنے والا ہی اس میچ کا فاتح ہو گا۔ کل تک نہ ماننے والے میاں نواز شریف بھی آج عدم اعتماد کی حمایت کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اندازا ہو چکا ہے کہ وہ اب پاکستان کے اداروں اور عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہیں انہیں اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے یہی وجہ ہے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد انہوں نے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کے خطرات بھی ہیں۔ اسمبلیاں توڑی جاتی ہیں یا پھر وہ لوگ استعمال ہوتے ہیں جن کے بارے میں اپوزیشن دعوے کر رہی ہے کہ وہ حکمراں جماعت کے ساتھ نہیں ہیں۔ بہرحال ہر صورت آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہی ہو گا۔ اپوزیشن حالات کو اس طرف لے کر جانا چاہتی ہے کہ صدر پاکستان وزیراعظم سے کہیں آپ اعتماد کھو چکے ہیں اس صورتحال میں وزیراعظم کو ثابت کرنا پڑے گا کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ اپوزیشن تو اپنے مستقبل کی جنگ لڑ رہی ہے اور موجودہ حالات وزیراعظم عمران خان کے اس بیانیے کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ سب میرے خلاف اکٹھے ہو جائیں گے۔ تحریک عدم اعتماد آتی ہے یا نہیں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، وزیراعظم عمران خان ہی رہتے ہیں یا ان کی جگہ شہباز شریف یا پھر کوئی جیالا نظر آتا ہے یہ سب اپنی جگہ ، اصل امتحان پاکستان کے ووٹرز کا ہے جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے چار مرتبہ حکومت میں رہنے والی پیپلز پارٹی یا پھر تین مرتبہ حکومت حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن پر اعتماد کرنا ہے کیونکہ ان دونوں جماعتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہی پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور اس قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے ہر سال لگ بھگ دس ارب ڈالر قسط اور سود کی مد میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ کارکردگی جمہوریت کے ان نام نہاد علمبرداروں کی ہے جنہیں آج ہر طرف اندھیرا نظر آتا ہے درحقیقت اس اندھیرے کا بندوبست کرنے والے وہی لوگ ہیں جو آج تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے تحریکِ انصاف کی حکومت عوامی توقعات پر پورا نہیں اتری لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ ملک کے بچے بچے کو مقروض بنانے والے اچھے حکمران تھے۔
تجزیہ