ایون فیلڈر یفرنس ثبوت نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف ہمار ا فیصلہ کچھ اور ہوگا اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں اور نیب کی نواز شریف کی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل میں دلائل جاری رہے۔ عدالت نے فریقین کو کیس کی پیپر بکس دیکھنے کی ہدایت کردی۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر لیگی رہنماؤں کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ میں بیک گراؤنڈ بتانا چاہتا ہوں کہ کس sequence میں یہ معاملہ چل رہا تھا۔ احتساب عدالت نے سزا سناتے وقت عدالتی اختیار کا غلط استعمال کیا۔ ریفرنس دائر ہونے سے لے کر ٹرائل تک کا عمل اختیار کا غلط استعمال تھا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ انصاف کے قتل کے حوالے سے برطانیہ میں دو کیسز کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ پراسیکیوشن نے شواہد پلانٹ کیے تھے اور وہ سزائیں کالعدم ہوئی تھیں۔ وکیل نے کہا کہ نیب نے اس کیس میں بنیادی جزئیات ہی پوری نہیں کیں، اثاثے کی اصل قیمت اور ذرائع پہلے بتائے ہی نہیں گئے، اس بات پر تو عدالت چاہے تو مریم نواز کو آج ہی بری کر سکتی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر ہوئی؟۔ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے لکھ دیا تھا کہ عدالتی آبزرویشنز سے ٹرائل متاثر نہیں ہو گا، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ واحد پہلو ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور، حج انتظامات میں بدانتظامیوں سمیت دیگر کیسز بھی تفتیش کے لیے متعلقہ اداروں کو بھجوائے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ کی پانامہ کیس میں جو بھی آبزرویشنز تھیں، آپ کیس کا بتائیں، انوسٹی گیشن اور ٹرائل کی خامیوں کی آپ نے نشاندہی کرنی اور ہم نے اسے جانچنا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ ثابت کر دیں کہ پراسیکیوشن جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوا تو باقی باتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ بتائیں کہ نیب کیا شواہد لایا تھا اور کیا وہ متعلقہ تھے یا نہیں؟، آپ نے نیب شواہد پر بات کو اپنے دلائل میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے، آپ اس پوائنٹ کو پہلے نمبر پر رکھیں۔ عدالت نے کہا کہ آپ پہلے یہی دکھا دیں کیس نہیں بنتا تھا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ثبوت موجود نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا، اگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ابتدائی نوعیت کی تھیں شواہد دیکھ کر نہیں۔ عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا نہیں، آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہی۔، جسٹس محسن اختر کیانی نے نے کہا کہ مریم نواز کا مرکزی ملزم کے ساتھ نہیں بلکہ انکا تو چھوٹا سا کیس ہے۔ مریم نواز کا کردار کیس میں کہاں سے آیا اس پر دلائل دیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی الگ الگ اپیلیں تھیں، مریم نواز کے خلاف پراسیکیوشن کا کیا کیس ہے، انہوں نے کیا دفاع دیا وہ بتا دیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر آپ یہ بتا دیں گے کہ نیب کا کیس ہی نہیں بنتا تھا تو آپکے دیگر دلائل تو اسی میں آ جائیں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت نہیں کر سکی، اگر کیس ثابت نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ کی آبزرویشنز کا مسئلہ نہیں رہتا۔ وکیل نے کہا کہ پہلا کیس ہے جس میں سپریم کورٹ نے تحقیقات کو سپروائز کیا، سپریم کورٹ کا خیال تھا کہ چیئرمین نیب کو نواز شریف نے تعینات کیا تھا تو انکوائری نہیں کریگا، سپریم کورٹ کو کیا امر مانع تھا کہ نیا چیئرمین نیب لگا دیتے۔ عدالت نے کہا کہ آپ اپنا کیس پیش کریں کہ پراسیکیوشن نے اپنا کام کیسے پورا نہیں کیا، جس پر وکیل نے کہاکہ پھر تو میں دو منٹ میں بتا دیتا ہوں، نیب نے اس کیس کی انکوائری کی ہی نہیں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے برٹش ورجن آئی لینڈ کی چٹھی کو ثبوت کے طور پر ٹریٹ کیا گیا، یہ سارا کیس ہی اس لیٹر پر ہے، احتساب عدالت نے مریم نواز کو برٹش ورجن آئی لینڈ کے ایک خط پر سزا دی، برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کو بنیادی شہادت تصور کیا گیا، برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط میں کہا گیا کہ مریم نواز اپارٹمنٹس کی مالک ہیں، احتساب عدالت نے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کے جواب میں مریم نواز کچھ پیش نہ کرسکیں۔ عدالت نے مریم نواز کے وکیل کو جج محمد بشیر کا نام لینے سے روک دیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ نے کہنا ہے تو ٹرائل کورٹ کہیں، جج کا نام نہ لیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اپیل میں ٹرائل کورٹ کی ججمنٹ ہی پڑھی جاتی ہے اور نقائص یا خامیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ایم ایل اے کے جواب میں جو لیٹر بھجوایا گیا وہ دکھائیں، یہ تو لاء فرم موزیک فونسیکا کی کی آپس کی خط و کتابت ہے۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے واجد ضیاء کو ایم ایل اے کے جواب میں موصول خط پیش کر دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 2012ء کی ایک چٹھی کا حوالہ دے رہے ہیں، کیا قانون شہادت کے مطابق اس پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ لاء فرم کا فنانشل ایجنسی کو لکھا ہوا خط ہے، برٹش ورجن آئی لینڈ کا پاکستان میں جو تصور پیش کیا جاتا ہے کہ وہ درست نہیں، وہاں قانون کے مطابق پروٹیکشن دی جاتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ ایم ایل اے میں جس وکیل اور ایجنسی کا حوالہ ہے کیا ان کا بیان ہوا؟، برطانوی ایجنسی اور لاء فرم کے بیان کے بغیر خط شہادت کیسے ہے ؟۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک چٹھی سے تو یہ ثابت نہیں ہو گا، کسی نے عدالت آ کر بھی تو بتانا ہو گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ایک ڈاکومنٹ ہے جس میں نام آ گیا ہے، جس دن وہ کمپنی بنی، اس دن سے بتائیں کہ وہ کمپنی کس کی رقم سے بنی؟، آپ ان سوالوں کا جواب دیں، ہم اب التوا نہیں دیں گے، اب ہم عدالت کا وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے، اس سوال کے جواب کے بعد اٹھیں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ مریم صفدر کے خلاف پراسیکیوشن کا کیا کیس ہے؟ اس کا لب لباب بتا دیں۔ عدالت نے کہا کہ ایک لیٹر برطانیہ سے آیا وہاں کے کسی بندے نے آکر جمع کرانا تھا یا نہیں؟۔ اگر بیفیشل مالک ثابت بھی ہو جائیں تو پھر مریم نواز کا کردار کیا ہوگا؟۔ اگر والد نے جائیداد غیر قانونی بھی بنا کر بیٹے کو دی تو کیا بیٹی قصور وار ہوگی؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ جب اس نکتے پر ہم پہنچیں گے تو اس پر بھی بات کریں گے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ہم وہاں آگئے ہیں، کوئی التواء نہیں ملے گا، میں بہت واضح ہوں کیوں وقت ضائع کریں ہم۔ عدالت نے کہا کہ نیب پہلے ہمارے سوالات کا جواب دے پھر مریم نواز کے وکیل کو سنیں گے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نہ کوئی نمائندہ پیش ہوا اور نہ ہی کوئی وکیل، کیا چٹھی خود سے سب کچھ واضح کرسکتی ہے؟۔ ہمیں ریکارڈ سے بتائیں، فیصلہ کرنا ہمارا حق ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر آپکا ایک سوال تھا کہ اگر یہی کچھ لانا تھا تو ایس ایس سی پی سے لاتے۔ عدالت نے کہاکہ برٹش ورجن آئرلینڈ کا پاکستان میں جو بتایا جارہا ہے کہ وہ سارا غلط ہے، مگر ایسا نہیں ہے، آپ نے اسی کیس کو آگے لیکر جانا ہے اور ہم نے دیکھنا ہے کہ یہ ایون فلیڈ اپارٹمنٹ سے جڑا ہے یا نہیں، کمپنی کے پاس پیسہ کہاں سے آیا جس نے پیسہ ایون فلیڈ اپارٹمنٹ پر خرچ کیا، آپ نے تاریخ اور دستاویزات سے بتانا ہے کہ کس نے پیسے سے اپارٹمنٹ خریدیں، ہم پہنچ گئے، بار بار تاریخ نہیں ہوگی، جو سوال کیا اس کا جواب دیں آپ، ہم نے آج عرفان قادر کو نہیں سننا، آپ نے سوال کا جواب دینا ہے اور ہم نے یہاں سے اٹھنا ہے، آپ نے صرف اتنا بتانا ہے کہ مریم نواز نے ایسا کیا کیا جس سے وہ ملزم قرار پائی۔ نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ مرکزی ملزم یہ بتانے سے قاصر رہے کہ انہوں نے پراپرٹی کیسے خریدی۔ عدالت نے کہا کہ جس دستاویزات کا آپ حوالہ دے رہے انہیں پر ان کو اعتراض ہے، کیا یہ دستاویزات ٹرائل کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے؟ جس پر نیب پراسکیوٹرنے کہاکہ گلف سٹیل ملز کو 1979 میں بیچا گیا، سپریم کورٹ کا ایک سوال تھا کہ گلف سٹیل ملز کو کیسے بنایا گیا، بتایا گیا کہ گلف سٹیل مل کو قرض کے پیسوں سے بنایا گیا۔ عدالت نے کہا کہ کیا دستاویزات کے مطابق نیلسن اور نیسکول کے ذریعے ایون فلیڈ اپارٹمنٹ خریدے گئے؟ یہ دستاویزات کہاں ایگزیکیوٹ ہوا ہے؟، کیا یہ دستاویزات وہاں کے کسی ادارے میں یہ رجسٹر ہونا ہے؟ یہ دستاویز کہیں رجسٹرڈ نہیں ہوا، جے آئی ٹی نے خود بتایا ہے، بڑا سادہ معاملہ ہے، صرف مریم صفدر کی حد تک آپ کیس کو رکھیں، حسین نواز کو مالک جبکہ مریم نواز کو ٹرسٹی بنایا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نے ٹرائل کے دوران یہ ثابت کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ مریم نواز کی جانب جعلی دستاویزات سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیں؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ میں الگ کہا جبکہ جے آئی ٹی کے سامنے اسی دستاویزات کو ٹھیک کہا۔ عدالت نے کہا کہ کیا مریم نواز اس دستاویز کو مانتی ہے؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ جی بالکل مریم نواز نے اس دستاویز کو مانا ہے اور ابھی تک انکاری نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فرانزک نے کہا کہ مریم نواز کی دستخط نہیں ہے، یا حسین نواز کا دستخط ٹھیک نہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں فرانزک میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ عدالت نے کہاکہ جس دستاویز کو آپ فورجری کہتے ہیں وہ فورجری کے زمرے میں نہیں آتا، کیا کیپٹن صفدر کو سزا صرف ماننے پر ہوئی؟، اگر حسین نواز بطور گواہ کہتا کہ یہ دستخط میرا نہیں، تب فورجری کے زمرے میں آتا۔ اس موقع پر نیب پراسکیوٹر نے والیوم 12 عدالت کو پڑھ کر سنایا۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہاکہ مریم نواز کا دعویٰ تھی وہ اس جائیداد کی ٹرسٹی ہیں، ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ وہ ٹرسٹی نہیں بینیفشل مالک ہیں، ہم نے اس ٹرسٹ ڈیڈ میں جعلسازی ثابت کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر وہ جعلسازی تھی تو کیا وہ سپریم کورٹ کے سامنے تھی یا جے آئی ٹی کے سامنے؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پھر جے آئی ٹی کے سامنے تصدیق کی، اس جعلسازی کیخلاف الگ سے کارروائی اپیلوں کے بعد ہونی ہے۔ عدالت نے کہاکہ جب آپ ٹرسٹ ڈیڈ جو جعلی کہتے ہیں تو اس کو مطلب کیا ہے؟ ٹرسٹ ڈیڈ کا فونٹ کیا تھا اس پر بعد میں آتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا کہیں سے ثابت ہوا کہ مریم نواز کے اس ڈیڈ پر دستخط نہیں؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں ایسا کہیں ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا کہیں یہ ثابت ہوا اس پر حسین نواز کے دستخط نہیں؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں ایسا بھی کہیں ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر ایسا ہے تو پھر ڈاکومنٹ جعلی نہیں، پری ڈیٹڈ کہلائے گا، ٹرسٹ ڈیڈ پر دونوں دستخط کرنے والے آج بھی کہتے ہیں یہ ان کی ڈیڈ ہے، کیپٹن صفدر کو صرف اس بات پر سزا ہوئی کہ یہ ان دستخطوں کے گواہ تھے، اس موقع پر دوران سماعت ہی مریم نواز نے دوران سماعت کمرہ عدالت میں نماز شروع کر دی اور کرسی پر بیٹھے ہی نماز پڑھی۔ عدالت نے نیب سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو جے آئی ٹی میں مریم صفدر نے سنگل پیج دستاویز دی؟۔ کیا ہم سمجھے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی یہ دستاویز لندن سے آیا؟، اگر یہ دستاویز لندن سے آیا تو اسکا مطلب ہے کہ مریم نواز نے آپ کو نہیں دیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے یہ دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔
ایوان فیلڈ کیس