عوامی سمندر میں شعور کا بیج بونے کی ضرورت
عجب غل مچا ہے سرحد پار سے اللہ اکبر کے نعرے نے سویا ہوا محل جگا دیا ہے جو ایک آدھ دن میں دوبارہ سو جائے گا ۔ لگتا ہے ایک بٹن ہے جو سلانے اور جگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے . آہستہ آہستہ یہ بٹن بھی خراب ہوتا جا رہا ہے . ایک دن ایسا بھی آئے گا جب جگانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی . دور پار کی ہوا آتی ہے تو ہماری سانسیں چلنے لگتی ہیں ۔ فہم و تدبر تو ہے نہیں .سوچ کی روشنی بھی بجھتی جا رہی ہے . پلانٹڈ ویڈیوز کی بھر مار ہے .۔بیک وقت بیسیوں ہنر تڑپ تڑپ کر اظہار کی کوشش میں ہیں ۔کبھی سمندر کنارے شامی بچے کی تصویر کہیں فلسطینی پناہ گزینوں کی بے بسی اور کبھی کشمیری عوام کی حالت زار پر قوم کا جنون ابلتا ہے۔ دور پار سے کسی بدعت کی خبر سماعتوں پر اترے تو تصدیق کو تکلف سمجھتے ہوئے دشمن کو دبوچ لیتے ہیں .لفظی دشنام کے ایٹم بم چلا کر فتح کی طمانیت ہماری رگوں میں ابلتے لہو کو ٹھنڈا کر دیتی ہے لیکن دماغ گرم ہی رہتا ہے . ہمارے وزرا ء اس گرم دماغی کو جہاد برحق سمجھتے ہیں لیکن ہماری حالت یہ ہے:
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہی ہم
نہ خدا ہی ملا , نہ وصال صنم
دونوں اطراف کے ویڈیو میکر نہ تو جہاد میں شامل ہوتے ہیں نہ نعرے میں .انہیں صرف لہو گرمانے میں دل چسپی ہے اثرات جس قدر نفوذ پذیر ہوں گے ان کا کاروبار چلتا رہے گا۔ دانش ور وہ ہیں جو آنے والے زمانے پر نظر رکھتے ہیں انھوں نے اپنے بچوں کا بچپن چھین کر ان پر نسلوں کا بوجھ لاد کر انھیں عالم ڈیکلیئر کر دیا ہے .قوم کے بوڑھے اور جوان ان بچوں کی طاقت پر ڈھیر ہیں اور ان کی پھونکوں سے توانا .عقیدت کے اپلوں سے تیار کردہ یہ ہجوم ساری زندگی گزارنے کے بعد خالی ذہن بے الف کی تلاش میں ہیں۔آنے والے وقت کی دھندلی تصویر میں صرف پھونکیں ہیں جن سے کوئی چراغ نہیں جلنے والا ۔راکھ کے انبار ہوا کے تعفن سے حرارت پانے کے منتظر ہیں . اجتہاد کے تاروں کو معتقدین کے جنون اور ہرکارے چوہوں نے کتر دیا ہے .سوالات کی معصومانہ حیرت اذہان کے کچے پن کی دلیل ہے جو ہمارے اداروں میں تیار کیا رہا ہے . جواب کے لیے ہمارے گوگل سے بہتر کوئی آپشن نہیں . نسلوں کے آزمودہ اقوال اور کہاوتیں گوگل کی تحقیق میں گم ہو چکی ہیں .ماضی کا مدفن کھلتا ہے تو فوسل فیولز کی طرح رنگ بدل چکا ہوتا ہے .ایسے تشکیک کے عالم میں تسبیح کے دانے پھیرنا ہمیں تقویت دیتا ہے اور سرحد کے نعرے ہمارا لہو گرما دیتے ہیں . وہ قوم جو ماضی کی روایات کو گرم چمٹا سمجھ کر تھامنے سے انکاری ہے , حال کے انگاروں پر دلائل کے انبار لگا دیتی ہے .دو ملکوں کی تقسیم سے شروع ہونے والا تنازعہ اب پختہ ہوتا جا رہا ہے. مودی حکومت کو مسئلوں کی مفاہمت سے کوئی سروکار نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ سرحد پار کے مسائل اب مخصوص فرقے کے خلاف تقویت پاتے جارہے ہیں. کبھی اسلام پر حملہ تو کبھی مسلمانوں پر تشدد ہمسایہ ملک میں عام چلن بن کر رہ گیا ہے. جس کا نشانہ پاتی نئی نسل بن رہی ہے. ملک عزیز میں رہنے والے ہندو بھی اتنے نشانے پر نہیں ہیں جتنا بھارت میں رہنے والا مسلمان سماجی تلخیوں کے ساتھ زندہ ہے. آخر کیا وجہ ہے کہ اچانک کہیں سے کوئی صدا بلند ہوتی ہے اور بندی نشانہ باندھ لیتی ہیں. نائن الیون کے بعد اب دنیا کے مسائل کافی تبدیل ہوئے ہیں نئی صدی کا انسان اگر یونہی چلتا رہا تو زمانے میں فتنے ہی پیدا ہوں گے ان کا حل نہیں. میرا منہ میری مرضی کے مضداق اب احتجاج کرنا مسئلہ نہیں بلکہ اسے زندہ رکھنا مسائل کا گھر ہے.اور ارباب کی توجہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر ہے .جس دن شہر کے ابلتے گٹر اور عوام کے شعور کو کچلنے والے نوٹیفیکیشنز کے ٹریکٹر شہر کے باہر سفر کریں گے تو داخلی اور خارجی راستوں پر لگائے گئے اربوں روپے بہہ جائیں گے .اگر عوام کے سمندر میں شعور کے بیج بونے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو پھولوں کی یہ فصل سارے شہر میں نظر آئے گی .اللہ اکبر کے نعروں کے لیے ہمیں کوئی ویڈیو درکار نہ ہو گی .
رہے نام اللہ کا.