• news

پاکستان کی جامع ترقی کا واحد حل

 پاکستان کی قومی ترقی میں صنعت وحرفت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے 80 فیصد صنعتیں ایگروبیسڈ ہیں۔ ان صنعتوں کو رواں رکھنے کیلئے خام مال اور سستی توانائی کی ضرورت لازم وملزوم ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں ہائیڈروپاور کے جاری منصوبے معیشت کیلئے خوش آئند ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے ہمیں کسی حد تک ریلیف تو ملے گا لیکن معیشت کے چیلنجز کیلئے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم حقائق سے نظریں نہ چرائیں بلکہ اپنے مسائل کے حل کیلئے ایسی جامع منصوبہ بندی کریں جس پر عمل کرکے ہم اپنی معیشت کو پروان چڑھا سکیں۔40 سال سے ہائیڈرو پاور کے منصوبوں سے پہلوتہی کرکے قوم کو مہنگی بجلی کا تحفہ ملا بلکہ آبی ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے زرعی و خوردنی اجناس کی پیداوار بڑھانے پر بھی عمل نہیں کیا جا سکا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے زرعی ملک کو اشیائے خورونوش بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے حکومتی مشینری اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کر رہی ہے۔ بھاشا ڈیم جیسا بڑا منصوبہ وسائل اور وقت کی کمی کی وجہ سے ایک مشکل امتحان کی طرح نظر آرہا ہے جبکہ عالمی ماہرین پاکستان کو آئندہ چند سالوں میں واٹر سٹریس ممالک کی صف میں شامل ہونے کا انتباہ کر رہے ہیں۔ اس مرحلہ پر ضروری ہے کہ ہم قومی ترقی کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہوئے اس امر کا ادراک کریں کہ کس طرح پاکستان درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔  
آبی منصوبوں کے ذریعے ہم اپنی بے آباد زمینوں کی آبادکاری سے نہ صرف خوردنی پیداوار میں خود کفالت سے آگے بڑھ سکتے ہیں بلکہ سستی بجلی کے طفیل زرعی پیداوار کو ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس میں تبدیل کرکے بھاری زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں لیکن صوبوں کے مابین اختلافات اور موزوں اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے آبی منصوبوں پر کام نہ ہو سکا جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ کالاباغ ڈیم جس کی اہمیت پر پوری دنیا کے ماہرین متفق ہیں، صوبوں کے درمیان نااتفاقی کی نذرہو گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چاروں صوبوںکے عوام کی حب الوطنی میں کوئی شبہ نہیں لیکن انہیں حقیقت حال سے کبھی آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے آبی وسائل کسی سال تو محض 100  ملین ایکڑ فٹ ہوتے ہیں اور کبھی 170  ملین ایکڑ فٹ  تک جا پہنچتے ہیں۔ اس کی اوسط 140 ملین ایکڑ فٹ تصور کی جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موزوں منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہر صوبے کو کتنا کتنا پانی کم مل رہا ہے۔ مارچ 1991 میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا جو معاہدہ ہوا۔ اس کے مطابق پہلے سے مستعمل پانی کا تخمینہ 102.73  ملین ایکڑ فٹ  لگایا گیا۔ مستعمل پانی کی مقدار بڑھانے کیلئے اسی معاہدہ  پیرا 6  کے تحت تمام ڈیم بنانے کی منظوری دی گئی لیکن بعد میں کچھ لوگوں نے اس واضح شق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آج تک (ایک آدھ سال کے علاوہ)  102.73 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی کو مستعمل بنا ہی نہ سکے۔ اندازہ لگائیں اگر ہم حاصل ہونے والے پانی کو مستعمل بنانے کیلئے حتمی منصوبہ بندی کر لیں تو ہر صوبہ کو سالانہ کتنا زائد پانی دستیاب ہوگا۔صوبوں میں زائد پانی کی تقسیم کچھ اس طرح ہے۔پنجاب 10.94 ،سندھ 15.21 ، خیبر پی کے 6.23، بلوچستان 4.84 ملین ایکڑ فٹ
صوبہ سندھ میں تھر کا 50 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ، پنجاب میں چولستان کا 20 لاکھ ایکڑ سے زائد، خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں 20 لاکھ ایکڑ سے زائد اور بلوچستان میں سبی پلین کا تین ملین ایکڑ رقبہ اپنی آباد کاری کیلئے پانی کا منتظر ہے لیکن ہم اپنی نااتفاقی سے اپنی انا قربان کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس حوالے سے کچھ سوال کرنا چاہوں گا۔ میرا سندھ اور بلوچستان سے سوال ہے کہ وہ بتائیں کہ کالاباغ ڈیم جو سیلابی پانی کے دباؤ پر ہے کو بنائے بغیر اپنے حصہ کا پانی کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ خیبر پختونخواہ کے غیور بھائی بتائیں کہ کالاباغ ڈیم بنائے بغیر وہ جنوبی اضلاع کا تقریباً دو ملین ایکڑ بنجر رقبہ کس طرح آباد کر سکتے ہیں؟ وہ چھ ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی کو کس طرح اور کتنے ہزار میگاواٹ بجلی کے ساتھ 60 تا 150 فٹ کی بلندی تک بجلی کی بھاری قیمت ادا کرکے آلودہ پانی کو لے جا سکتے ہیں؟ اس آلود ہ پانی کو لفٹ کرنے والی مشینری کتنے عرصہ میں چل سکے گی؟میرا پنجاب سے بھی سوال ہے کہ راوی اور ستلج کا درمیانی علاقہ اپنے زیر زمین میٹھے پانی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ آج ان علاقوں میں زیرزمین پانی انتہائی گہرائی میں چلا گیا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 30 سال بعد ان علاقوں میں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہو جائے گی۔ وہ اپنے ان مسائل کو کس طرح حل کرے گا اور مزید یہ کہ وہ چولستان کو کس طرح آباد کرے گا؟ان حالات میں ارباب بست و کشاد سے اپیل ہے کہ وہ ان سوالوں کو چاروں صوبوں کے ماہرین کے سامنے رکھیں اور ان کا شافی جواب سنیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ماہرین اپنی صلاحیت کے بل پر ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ یاد رکھیں! اگر ہم نے آج بھی اتفاق نہ کیا اور آپس میں یونہی الجھتے رہے تو صرف ایک آدھ عشرہ میں ہی ہم د نیا کے آلودہ اور پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہو جائیںگے۔ وزیر اعظم صاحب! آگے بڑھیں اور آبی منصوبوں کی تعمیر کیلئے مجاہدانہ قدم اٹھائیں۔

ای پیپر-دی نیشن