آغا شورش کاشمیری
آغا صاحب عملی سیاست سے تو لاتعلق رہے لیکن ان کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ حکمرانوں کی ناراضی کا اکثر و بیشتر شکار بنتا رہا تھا ۔ ’’وفاق‘‘ کے ایڈیٹر اور میرے دوست مصطفی صادق صاحب کو ایسے معرکوں میں دخل دینے کا خوب ملکہ حاصل تھا ۔ حکومت کی آغاصاحب سے ناراضی کے ایک دور میں وہ کھینچ کھانچ کر آغا صاحب کو اس وقت کے سیکرٹری محکمہ اطلاعات پنجاب جناب مسعود الرئوف کے پاس لے گئے ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی کوشش اور مسعود الرئوف صاحب کی میانہ روی کے باعث آغا صاحب کچھ نرم پڑجائیں گے مگر آغا صاحب نے اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی اُنگلی کودوسرے ہاتھ کے انگوٹھے سے دباتے ہوئے مسعود الرئوف صاحب سے کہا …یہ اُنگلی میرے جسم کا کمزور ترین حصہ ہے ، آپ میرے دل و دماغ تو کیا اور میرا سر تو کجا ، میری اس اُنگلی کو بھی نہیں جُھکا سکتے… ! پھر ’’چٹان‘‘ میں ’’الحمدللہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک ادارتی شذرہ نے اس وقت کے صوبائی وزیر اطلاعات سید احمد سعید کرمانی کو مشتعل کردیا۔ انہوںنے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کی اشاعت پر پابندی اور آغاصاحب کے ’’چٹان پرنٹنگ پریس ‘‘ کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا ۔ اس پابندی کے باعث ’’چٹان ‘‘ کی اشاعت تو بند ہوگئی مگر ’’چٹان‘‘ کا پریس حکومت کے کاری وار کی ضرب سے محفوظ رہا کیونکہ آغا صاحب نے حفظِ ماتقدم کے طورپر پریس کی اصل مشینیں بلڈنگ کے مرکزی ہال میں منتقل کردی تھیں اور ان مشینوں کے لئے ’’مسعود پرنٹرز‘‘ کے نام سے الگ ڈیکلریشن حاصل کرلیا تھا ۔ اس طرح جب پولیس چٹان پریس ضبط کرنے آئی تو ان کی بلڈنگ کے ایک کمرے پر چٹان پرنٹنگ پریس کا بورڈ لکھا دیکھا جس میں موجود ایک خستہ حال مشین حکومت کے احکام کے تحت ضبط کرلی گئی ۔ اِدھر مرکزی حکومت ڈھاکہ سے شائع ہونے والے بنگلہ اخبار روز نامہ ’’ اتفاق‘‘ کے خلاف پابندیاں عائد کررہی تھی ، اس طرح ’’چٹان‘‘ پر پابندی اور ’’اتفاق‘‘ کی اشاعت میں پیدا کی جانے والی رکاوٹیں صحافیوں کی ملک گیر تحریک کا حصہ بن گئیں۔ آغا صاحب کی ساری زندگی سیاسی و صحافتی دائو پیچ لڑاتے گزر ی تھی ۔ وہ اور ان کا جریدہ ’’چٹان‘‘ اس وقت جمعیت علماء اسلام کے رہنمائوں مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے خلاف تیز و تند مضامین شائع کررہے تھے۔ آغا صاحب نے راتوں رات لائل پور سے اپنے دوست مولانا تاج محمود کو لاہور بُلایا جنہوں نے جمعیت علماء اسلام کی کانفرنس جو دوروز سے موچی دروازہ میں جاری تھی ، کے آخری اجلاس میں آغا شورش کاشمیری کی شرکت اور خطاب کے لئے راہ ہموار کردی ۔ بس پھر کیا تھا… آغا صاحب نے اپنی تقریر میں احمد سعید کرمانی کے وہ لتے لئے کہ تو بہ ہی بھلی… ! ان کی آتش نوائی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ مجمع سے یہ کہتے کہ کرمانی صاحب کے مکان یا دفتر پر حملہ کردو تو یہ آگ بگولا اجتماع اس کام میں ایک منٹ کی تاخیر نہ کرتا۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنمائوں نے اسی جلسہ میں یہ اعلان کردیا کہ وہ اگلے روز ’’چٹان‘‘پر پابندی کے خلاف علماء کا جلوس نکالیں گے ۔ یہ جلوس موچی دروازہ کی جلسہ گاہ سے شروع ہوا اور چٹان بلڈنگ سے ہوتا ہوا جی پی او چوک پہنچ کر منتشرہوا۔ راتوں رات ’’ چٹان‘‘ میں شائع ہونے والے شذرہ ’’ الحمد للہ‘‘ کے بیج تیار کرائے گئے جنہیں جلوس شروع ہونے پر ملک بھر سے آئے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کے بازوئوں پر باندھنے کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ شذرہ’’چٹان‘‘ کے مدیر معاون جناب حمید اصغر نجید نے سپرد قلم کیا تھا ۔ اتفاق یہ ہے کہ ’’ الحمد للہ‘‘ نجید صاحب کا تکیہ کلام بھی تھا اور ’’چٹان‘‘ پر پابندی اور چٹان پریس کی ضبطی کے بعد نجید صاحب ’’الحمد للہ‘‘ کے لقب سے ہی جانے جاتے تھے ۔ اگر ایک صحافی نے کسی مجلس میں نجید صاحب کا نام لیا تو ایک دوسرے صحافی نے ساتھ ہی الحمدللہ کہہ کر ان کا نام مکمل کردیا۔ اب مصطفی صادق صاحب پھر بیچ میں آئے ، انہوںنے لاہور کے تمام قابل ذکرایڈیٹروں سے حکومت کے نام ایک اپیل پر دستخط کرائے جس میں آغا صاحب کی خراب صحت کے باعث ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔آغا صاحب ذیابیطس کے باعث جیل سے میو ہسپتال کے اے وی ایچ وارڈ میں منتقل کئے جا چکے تھے ۔ انہیں سیاسی لحاظ سے حکمرانوں کو آنکھیں دکھانے کا خوب تجربہ تھا ۔ انہوںنے ہسپتال میں کچھ کھانے پینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں تا مرگ بھوک ہڑتال شروع کررہا ہوں۔ ہم ’’ وفاق‘‘ میں روزانہ ان کی صحت کی حالت کے بارے میں خبریں شائع کرتے تھے جس پر آغا صاحب بہت خوش ہوتے تھے مگر تیسرے دن ان کی خوشی سخت ناراضی میں تبدیل ہوگئی کیونکہ ہمارے رپورٹر نصر اللہ غلزئی (مرحوم)نے’’ وفاق‘‘ میں یہ خبر شائع کردی کہ آج آغا شورش کا شمیری کی بھوک ہڑتال تیسرے دن میں داخل ہوگئی ہے اور ان کی حالت کل کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ بہر حال اس اپیل کے چوبیس گھنٹے بعد حکومت نے آغا شورش کاشمیری کو رہا کردیا۔ جناب مجید نظامی کی تجویز پر مصطفی صادق صاحب نے دیال سنگھ مینشن میں واقع شیزان ریسٹورنٹ میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔ مجید نظامی صاحب نے مصطفی صادق صاحب سے یہ بھی کہا تھا کہ دیکھنا ! آغا صاحب وہاں کوئی تقریر نہ کردیں اور معاملہ پھر خراب نہ ہوجائے ، مصطفی صادق صاحب نے نظامی صاحب کو یقین دلایا کہ انشاء اللہ آغا صاحب کی تقریر نہیں ہوگی۔ مجید نظامی صاحب نے ایک اور شرط بھی عائد کی تھی کہ ایک صاحب کو آغا صاحب کے ساتھ استقبالیہ میں نہ آنے دیا جائے، استقبالیہ میں فنگر فش چائے اور دیگر لوازمات سے مہمانوں کی تواضع کی گئی ۔ مصطفی صادق صاحب نے استقبالیہ کے آخر میں آغا صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ان کی رہائی کے لئے اپیل کرنے پر ایڈیٹروں کی تعریف کی اور حکومت کی طرف سے ان کی رہائی کے احکام جاری کرنے پر ارباب حکومت کا شکریہ ادا کیا ۔ آغا صاحب کا خیال تھا کہ مصطفی صادق صاحب کے بعد انہیں اظہار خیال کی دعوت دی جائے گی لیکن مصطفی صادق صاحب کے اس اعلان نے آغا صاحب کو حیران و پریشان کردیا کہ ’’ حضرات اب یہ محفل اختتام کو پہنچتی ہے ‘‘۔ آغا صاحب کی زبان سے ناراضی کے ایک دو فقرے بھی سرزد ہوئے مگر مجید نظامی آنکھوں ہی آنکھوں میں مصطفی صادق صاحب کو اس اقدام پر داد دے رہے تھے۔
گزشتہ کالم میں آغا صاحب کی آخری گرفتاری کا سال 1965ء لکھا تھا اسے 1966ء پڑھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)