• news

شیر افضل جعفری سے وابستہ یادیں

جھنگ میں میری سکونت دس بارہ سال رہی ہے۔ میرا گھرانا 1947ء میں جب جھنگ پہنچا تو میں چوتھی جماعت میں تھا۔ وہاں سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ اس طویل مدت میں بہت سے تجربات ہوئے اور بہت کچھ مشاہدات کیے جن کی بہت سی اچھی بری یادیں میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے خوشگوار ترین یادیں شیر افضل جعفری سے روابط کی ہیں۔ میں جب گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہوا تو سائیکل پر کالج جاتا تھا۔ جھنگ اور مگھیانہ دو جڑواں شہر ہیں جن کے درمیان تقریباً تین کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ کالج کا وسیع رقبہ مگر قدرے چھوٹی عمارت دونوں شہروں کے عین وسط میں واقع ہے۔ جعفری صاحب جھنگ شہر میں رہتے تھے اور میں مگھیانہ میں (جسے اب جھنگ صدر کہا جاتا ہے)۔ دونوں شہروں کو ملانے والی سڑک پر ہم دونوں سائیکل پر مخالف سمتوں میں جاتے ہوئے گزرتے تھے۔ جعفری صاحب کا حلیہ دوسروں سے اتنا مختلف تھا کہ فوراً نظر ان پر پڑتی تھی۔ وہ مشہور شاعر تھے اور میں طالب علم ان کے نام سے تو خوب واقف تھا مگر کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ 1956ء میں جب میں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا تو ان سے شعری نشستوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔
شیر افضل جعفری کا جسم، قد اور چہرے کے نقوش متناسب تھے۔ رنگ سانولا، لباس مشرقی، سر پر کلاہ اور پگڑی، آنکھیں روشن مگر اس کا پتا تب چلتا تھا جب وہ عینک اتارتے تھے۔ انگشت بھر داڑھی جو پہلے سفیدی مائل تھی پھر بالکل سفید ہو گئی تھی۔ گھنی مونچھیں جو داڑھی کے ساتھ ملی ہوئی تھیں لیکن آواز دبلی پتلی تھی جو ان کے حلیے سے لگا نہیں کھاتی تھی۔ یہ تھے شیر افضل جعفری۔ مشاعرے میں بلند آواز سے داد دیتے تھے اور نوجوان شعراء کی بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مزاج میں بہت انکسار تھا۔ لوگوں کے بارے میں عام طور پر مثبت باتیں کرتے تھے اور منفی باتوں کی طرف اشارہ کر دیتے تھے مگر طول نہیں دیتے تھے۔ ان دنوں وہ ملک کے مشہور شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ تمام ادبی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔ سرکاری رسالہ ’ماہِ نو‘ جو ان دنوں کراچی سے نکلتا تھا، خاص طور پر ان کے کلام کو اہتمام سے چھاپتا تھا اور اس زمانے کے مدیر ’ماہِ نو‘ رفیق خاور ان کی شاعری کے بہت مداح تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اردو میں پنجابی کی باقاعدہ آمیزش کرنے والے یہ پہلے شاعر تھے اور رفیق خاور یہ سمجھتے تھے کہ آئندہ پاکستانی اردو اسی قسم کی ہو گی۔ یہ بات اس لحاظ سے درست ثابت ہوئی کہ بعد میں بہت سے مشہور لکھنے والوں نے بھی یہی اسلوب اختیار کیا جس میں اشفاق احمد نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ شیر افضل جعفری کو خود بھی اس کا احساس تھا کہ وہ اردو میں ایک نئے اسلوب کی طرح ڈال رہے ہیں۔ انھوں نے ایک روز مجھے کہا تھا: ’میں نئی اردو کا ولی دکنی ہوں گا۔‘
جھنگ میں جن لوگوں نے شاعری میں میری بہت حوصلہ افزائی کی ان میں جعفری صاحب سرِفہرست تھے۔ شیر افضل جعفری تو جھنگ سے بہت کم باہر جاتے تھے اور عمر بھر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ میٹرک پاس کر کے سکول میں ملازمت کی پھر سکولوں میں تدریس کے لیے سندات حاصل کیں جنھیں جے وی اور ایس وی کہا جاتا تھا۔ پھر سکولوں کے لازمی حاضری افسر بن گئے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے مگر جھنگ ان کے دل میں بستا تھا اور وہ بہت کم کہیں اور جاتے تھے۔
جنھیں بخش دے جھنگ سر مست گلیاں
وہ لاہور کی سمت کم دیکھتے ہیں
انھیں مشاعروں پر بھی اکثر مدعو کیا جاتا تھا، ریڈیو اور ٹی وی والے بھی بلاتے تھے۔ وہ سراسر انکار تو نہیں کرتے تھے مگر قدرے کم التفات کرتے تھے۔ ان کے شاعر دوستوں میں سرِفہرست مجید امجد اور جعفر طاہر تھے۔ تینوں کبھی جھنگ میں ہوا کرتے تھے۔ پھر جعفر طاہر فوج میں چلے گئے اور مجید امجد بہت سے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور شہروں میں ملازمت کرنے کے بعد آخر ساہیوال (منٹگمری) میں بس گئے۔ دونوں بہت کم جھنگ آتے تھے لیکن ان میں باہمی محبت قابلِ رشک تھی۔ جعفر طاہر اور مجید امجد دونوں یکتائے زمانہ شاعر تھے مگر مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مجید امجد بہت خاموش طبع اور پیکرِ صبر و تحمل۔ جعفر طاہر غصیلے اور اشتعال پذیر مگر دونوں علم و فضل میں لاجواب۔ جعفری ان دونوں کے شعری کمالات کے بہت قائل تھے اور رشک و حسد کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔
شیر افضل جعفری بعض لحاظ سے ہمارے منفرد ترین شاعر ہیں۔ ان کی ’پاکستانی اردو‘ کا ذکر ہو چکا لیکن اگر آپ کو دریائے چناب اور جہلم کے درمیان کی سرزمین کے زندہ مرقعے دیکھنے کی خواہش ہو تو شیر افضل جعفری کی شاعری سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ملے گا۔ چناب اور جہلم جھنگ میں تریموں گھاٹ کے قریب ملتے ہیں۔ ایک کا پانی مٹیالہ اور دوسرے کا سفیدی مائل نیلگوں ہے۔ ملنے کے بعد بھی کچھ دور تک دونوں دھارے الگ الگ بہتے نظر آتے ہیں۔ ان میں آتی جاتی مسافر کشتیاں، برسات میں پک نک مناتے ہوئے لوگوں کی موج مستیاں، اردگرد پھیلے ہوئے بیلے، ان کے گھنے درخت، ان میں بسنے والے جانور، چہچہانے والے پرندے، لہلہاتی فصلیں، اونچے نیچے ٹیلے، خوشگوار اور شدید موسم، اونٹ اور گھوڑوں پر آنے جانے والے قبائلی، محنت کش مرد اور عورتیں، ان کی زندگیوں کی مشکلات، ان کے رومان، موسموں کا تغیر و تبدل اور ان کے لوگوں پر اثرات غرض وہاں کا سارا منظرنامہ زندہ ہو کر ہمارے آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ شیر افضل جعفری کی شاعری نشاطیہ ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں سے خوشیاں کشید کرتے ہیں۔ پوری اردو شاعری میں اتنی نشاطیہ کیفیات کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آئیں گی جتنی شیر افضل میں ہیں۔ وہ کبھی شاعرِ رومان تھے۔ پھر ان کا جھکاؤ مذہبی شخصیات اور اقدار کی جانب ہو گیا لیکن ان میں کوئی کیفیت مصنوعی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ان پر گزری واردات دکھائی دیتی ہے۔
خوشی کی بات ہے کہ حال ہی میں الحمد پبلی کیشنز لاہور نے کلیاتِ شیر افضل جعفری شائع کی ہے جسے ان کے دو قریبی عزیزوں نجم الحسن خان اور علی چنار عباس نے مرتب کیا ہے۔ اس میں ان کا سارا کلام شامل ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے وہ تمام ماضی یاد آ گیا ہے جو میں نے جھنگ میں بسر کیا تھا اور شیر افضل جعفری کی بہت سی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ ممکن ہے یہ کلیات ان کی شاعری کی نشاۃ الثانیہ بن جائے۔

ای پیپر-دی نیشن