جہاں دمدار ستارے بھی بابرکت ہیں
صحافت کی ابتدائی تعلیم کے دوران ایک مثال اکثر سنائی جاتی تھی کہ ہر انہونی میں کوئی نہ کوئی خبرہوتی ہے تاہم معمول کے معاملات میں خبریت کم ہی ہوتی ہے ۔ یہ اور بات کہ آج کل بیان ہی کو خبر سمجھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاتی تھی کہ کتا انسان کو کاٹے تو کوئی خبر نہیں کیونکہ کتے کا تو کام ہی کاٹنا ہے البتہ اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے مگر ڈیرہ غازیخان میں سکول کی چار دیواری میں آوارہ کتوں نے 14 سالہ طالبعلم کو نوچ نوچ کر موت کے منہ میں دھکیل دیا اور انٹرنیشنل لیول کی خبر بنا کر اسے پاکستان کے ماتھے پر ایک اور دھبہ لگا دیا کہ ہم انتظامی معاملات میں ابھی بھی کتنا پیچھے ہیں ۔اس اذیت ناک واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے جس میں علی الصبح سنسان گلی میں کئی کتے طالب علم کو نوچ رہے ہیں اور وہ زمین پر گرا ہوا ہے۔ دوسری خبر ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے ذمہ دار آفیسر کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے ازخود ہی بنا دی۔ موصوف فرماتے ہیں کہ بچہ خوفزدہ ہو کر گرا اور سر پر چوٹ لگنے سے اس کی موت واقعہ ہوئی گویا اس کا لباس ، کتوں کے نوچنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سراسر بے بنیاد‘ لغو اورگمراہ کن ہے۔
اب جس سکول میں یہ حادثہ ہوا وہاں کے سربراہ بھی کیوں پیچھے رہتے۔ انہوں نے تیسری خبر بنادی اور فرمایا کہ بچے کی غلطی ہے کہ وہ وقت سے پہلے کیوں سکول آگیا ۔ پرنسپل کے بیان کو دیکھا جائے تو ساری کی ساری غلطی متوفی طالبعلم مبشر کی ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ انتہائی لائق اور تابعدار طالبعلم تھا، ہمیشہ وقت پر سکول آیا کرتا تھا اور اس میں اس چوکیدار کی کوئی غلطی ہی نہیں جو ڈیوٹی پر موجود نہ تھا ۔
سی سی ٹی وی فوٹیج بتا رہی ہے کہ کتے سکول میں پہلے داخل ہوئے جبکہ مبشر نامی بچہ پانچ منٹ بعد اورسکول میں چوکیدار سرے سے موجود ہی نہ تھا ۔یہ ہیں وہ ہیرے جو پنجاب کی بیوروکریسی کے اُفق پر روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور یہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی کا کمال ہے جہاں دمدار ستارے بھی بدشگونی اور نحوست کی بجائے ’’برکت‘‘ قرار پاتے ہیں۔ویسے بھی گزشتہ پانچ دہائیوں سے سرکاری افسران کا یہ وطیرہ ہے کہ نچلے درجے کے ملازمین اپنی سرکاری ڈیوٹی کی بجائے ان کے گھروں پر ہی ’’ڈیوٹیاں‘‘ دیتے ہیں اور پھر سکول کے احاطے میں اس طرح کا واقعہ رونما ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اب یہ بحث جاری ہے کہ کتا مار مہم بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے یا محکمہ صحت کی۔
گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے ابتدائی سالوں میں ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا اور لینڈ لائن ٹیلی فون کا زمانہ تھا۔
ان دنوں لاہور کارپوریشن کی سالڈویسٹ مینجمنٹ ٹھیکے پر نہ تھی اور چند افسران صرف 6 کروڑ سالانہ میں سارا نظام چلاتے تھے ، باخبر ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی سال سے سالڈویسٹ مینجمنٹ کے اس نظام کو ایک برادر اسلامی ملک میں رجسٹرڈ ایک کمپنی چلا رہی ہے ۔ جس کے بیشتر ڈائریکٹرز انہی ذرائع کے مطابق پاکستانی ہی ہیں ، ایک آدھ ذائقے کے طور پر مذکورہ ملک کا باشندہ شامل کیا گیا ہے ۔ یہ آفشور نہیں بلکہ آف کوڑا کمپنی وہی کام اربوں میں چلا رہی ہے جو 90 ء کی دہائی میں صرف 6 کروڑ سالانہ میںکہیں بہتر ہوا کرتا تھا۔ یہ کمپنی کئی سالوں سے ’’کوڑا فروشی‘‘ علیحدہ سے کر رہی ہے۔
ان دنوں سالڈویسٹ مینجمنٹ کے انچارج ایک ڈاکٹر صاحب ہوا کرتے تھے جن کے گھر کا فون اکثر خراب ہو جاتا تھا۔ شہر کے کسی علاقے میں بھی سینی ٹیشن یا سالڈویسٹ کا مسئلہ پیدا ہوتا تو صبح ہی ان کے گھر فون آنا شروع ہو جاتے۔ ان کا فون آئے دن خراب ہو جاتا اور وہ سمن آباد لاہور میں واقع ٹیلیفون ایکسچینج جاکر درخواستیں کرتے، فون بحال کراتے اور چند دن بعد پھر وہی صورتحال پیدا ہوجاتی۔ آئے روز یہی جھگڑا رہتا اور کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہ ہوتا ان دنوں پی ٹی سی ایل جو کہ ٹی اینڈ ٹی کہلاتا تھا ۔ تب اس محکمے کا لائن مین ہی علاقے کا سب سے بڑا ’’آفیسر‘‘ مانا جاتا تھا۔
جب کئی ماہ کوششوں کے باوجود سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے انچارج ڈاکٹر صاحب اپنا فون کے بار بار منقطع ہونے کا سلسلہ ختم نہ کراسکے تو انہوں نے اپنے عملے کو حکم دیا کہ کتے مار مہم شروع کی جائے۔ شہر بھر میں کتے مار مہم شروع ہو گئی اور کتے مار کر شدت کی گرمی میں جوبلی ٹاؤن کے علاقے میں دھوپ میں جمع کر لیے گئے۔ تین دن بعد مرے ہوئے سارے کتے ایک ٹریکٹر ٹرالی پر لادے گئے اور علی الصبح مذکورہ ٹرالی کا ٹائر مبینہ طور سمن آباد لاہور میں واقع ٹیلیفون ایکسچینج کے سامنے پھٹ گیا ۔ دور ‘دور تک اذیت ناک بدبو پھیل گئی ایکسچینج کے تمام عملہ دفتر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ بلدیہ کے متعلقہ عملے کی تلاش اور منتیں شروع ہوئیں تو چند گھنٹے بعد ٹائر تبدیل کر دیا گیا پھر اس واقعہ کے بعد مذکورہ ڈاکٹر صاحب کے گھر کے فون وی وی آئی پی اور ہاٹ لائن کا درجہ حاصل کر لیا نہ وہ کبھی خراب ہوا اور نہ ہی اس میں کبھی شور ہوا۔
جب مسئلہ اپنی ذات یا مفاد کا ہو تو کوئی حلقہ بندی نہیں ہوتی۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی ملتان میں ایک سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے افسر نے ایک نجی ہسپتال کے سامنے کوڑے کا ڈھیر لگوا دیا ۔متعدد افسران مذکورہ افسر کو اس حرکت پر سپورٹ کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔ جب مسئلہ ذاتیات کا ہو اور گرہ اپنے دل پر پڑے تو اختیارات کی تمام تر جنگ ختم ہو کر اختیارات کے استعمال میں تبدیل ہوجاتی ہے اور مسئلہ عوام کا ہو تو پھر ذمہ داری ایک دوسرے کے محکمے پر اسی طرح ڈالی جاتی ہے جس طرح پولیس تھانے کی حدود کا تعین کرتی رہتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ملتان کی نوبہار نہر میں کئی سال پہلے ایک لاش تیرتی ہوئی پل کے درے میں پھنس گئی۔ متعلقہ تھانے کو اطلاع ہوئی تو ایک کانسٹیبل غوطہ خور کو لیکر آیا اور اس نے سب کی موجودگی میں ایک بانس کے ساتھ لاش کو نکالنے کی بجائے آگے دھکیل دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاش مذکورہ تھانے کی حدود کراس کرگئی۔
میں نے ایک کاریگر افسر سے اس رویے کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ نامعلوم لاش پولیس ملازم کو کم از کم 5 ہزار میں پڑتی ہے۔ جس کی ڈیوٹی لگ جائے سمجھو اس کا پانچ ہزار گیا۔وہ اسے نکالے گا اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے ہسپتال لیکر جائے گا ‘ پوسٹ مارٹم کرائے گا ، پھر کسی اخبار میں اسکی تصویر شائع کرائے یا علاقے میں منادی کرائے۔اس کا پانچ ہزار بھی گیا اور دو دن کا وقت بھی لہٰذا نامعلوم لاش کو نامعلوم رکھنے میں ہی پولیس والوں کا بھلا ہوتا ہے ۔یاد رہے کہ تب سوشل میڈیا کا زمانہ نہ تھا اور تب پنجاب میں 1122 کی سروس نہ تھی۔ یہ سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا عوام کیلئے بہت بڑا تحفہ ہے کہ کم و بیش گزشتہ سترہ سالوں میں ہر کسی نے اس سے استفادہ ضرور کیا ہے۔
اب چند دن کارروائی ڈالی جائے گی ، دوچار کتے مریں گے اور کسی غریب بچے کی موت تک انتظار فرمائیے کا ’’ لوگو‘‘ چلتا رہے گا۔ تاہم اللہ نہ کرے اس دوران حادثہ کسی اشرافیہ کے رکن کے ساتھ ہوگیا تو کتے پھر تصویروں میں ہی ملیں گے۔