امریکی جنگ نے دہشتگردوں کو جنم دیا،18ویں ترمیم سے بڑے مسائل سامنے آئے: عمران
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی، نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کیا اس وقت افغانستان میں طالبان کے سوا کوئی آپشن ہے؟ جلد یا بدیر طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ پڑوسی ملک میں بد ترین انسانی بحران جنم لے رہا ہے، ہرکوئی افغان عوام سے متعلق تشویش میں مبتلا ہے، دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ نے ہی دہشت گردوں کو جنم دیا اور بطور اتحادی واشنگٹن کی پالیسیوں کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی طالبان، بلوچ دہشت گرد تنظیمیں اور داعش پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ افغانستان پر معاشی دباؤ ڈالنے سے طالبان نہیں بلکہ افغان عوام کو ہی نقصان ہوگا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ہی دہشت گردوں کو جنم دیا، امریکہ کو ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی، امریکی بم دیہات میں پھٹے جس کے نتیجے میں بڑا جانی نقصان ہوا، امریکہ کے اتحادی تھے اور امریکہ کی جنگ میں شمولیت کے بعد اسلام آباد قلعہ کا منظر پیش کررہا تھا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چین میں ہمارے سفیر سنکیانگ کے علاقے میں گئے، ہمارے سفیر کے مطابق سنکیانگ کی صورتحال مغربی ممالک کے بیانات سے مختلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے، مقبوضہ کشمیر میں قتل عام ہورہا ہے، سنکیانگ اور کشمیر کی صورتحال کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ چین اور مغربی دنیا کے نقطہ نظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایک اور سرد جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہمیں دوسری سرد جنگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں پہلے ہی 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ بھارت میںآر ایس ایس نظریہ کی حکمرانی ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان میں خودکش حملوں کا آغازہوا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں معصوم لوگوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آواز اٹھائی۔ بھارت کا 5 اگست 2019 کا اقدام یو این قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ چین اور مغربی دنیا کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کا خدشہ برقرار رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ایک اور سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہیں۔ عالمی برادری کشمیر پر بات نہیں کرتی۔ بھارت کے کئی لوگ میرے دوست ہیں ان کے ساتھ تعلق ہے۔ حکومت میں آتے ہی میں نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ مودی سے کہا آپ ایک قدم بڑھائیں گے ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ مودی سے کہا مسئلہ کشمیر اچھے پڑوسیوں کے طور پر حل کریں۔ علاوہ ازیں صحافیوں اور سابق سفیروں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی کو خوش کرنے کے بجائے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کا نقشہ تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ چین کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ افغانستان پر چین اور پاکستان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن صرف امریکہ کی رائے مختلف ہے اور امریکہ اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ چین سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے چین سے تعلقات موجودہ دور کے بعد زیادہ مضبوط ہوئے۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں اور وفاق میں تقسیم ہو گئے اور 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے مسائل سامنے آئے۔ اب درپیش مسائل کے حل کے لیے مسلسل اجلاس کر رہے ہیں۔ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ اصلاحات کے لیے پارلیمان میں 2 تہائی اکثریت ضروری ہے۔ کرونا کے دوران لاک ڈاؤن نہ کرنے پر مجھ پر بڑی تنقید کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ 2 سال پہلے بشکک میں روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی تھی جس میں پیوٹن نے کہا تھا کہ روس میں کوئی اسلامو فوبیا نہیں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ سی پیک کے تحت کئی ٹرانسمیشن لائنیں بنائی گئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں گندم کی الگ الگ قیمتیں ہیں جبکہ ملک میں اشیاء کی قیمتیں یکساں ہونی چاہئیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دو جنگلی بلے(leopard cats) بچانے اور انہیں مارگلہ کی پہاڑیوں پر محیط نیشنل پارک میں واپس چھوڑنے پر وہ محکمہ جنگلی حیات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان میں جنگلی حیات بچانے اور سیاحت کو فروغ دینے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہے۔ وزیراعظم نے ٹوئٹر پر جنگلی بلوں کو نیشنل پارک میں چھوڑے جانے کی ویڈیو بھی شیئر کی۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج دن 12 بجے پی ایم ہائوس میں طلب کرلیا۔ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے پارٹی رہنمائوں اور ترجمانوں کا بھی اجلاس بلالیا۔