• news

حزب اختلاف کی آنیاں ، جانیاں

 وطن عزیز کی سیاست میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد  نہ جانے کسطرح  غیر سیاسی قوتوںنے وطن عزیز کی سیاست میں ٹانگ اڑا لی۔اور کسی نہ کسی طرح ہر آنے والی حکومت کے  دھڑن تختہ ہونے کا عمل آج تک جاری ہے  ۔ مگر اصل مسئلہ پاکستان کو اپریل 1953 سے اکتوبر 1958  تک حکومتیں آتی جاتی رہیں جس میں  سیاست دان محض نمائشی عہدوں پر لالی پاپ کا مزا چکھتے رہے  جبکہ حکومت کی اصل طاقت اور مرکز جنرل ایوب خان  اور سکندر مرزا رہے  بعد ازاں  13سالہ آمریت کا نتیجہ  یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہوگیا  ۔لگا کہ  جمہوریت اب دم پکڑے گی مگر  عوام کا  نام نہاد  حق جمہوریت  جولائی 77 میں پھر سلب کر لیا گیا۔ 31 دسمبر 1985 کو آٹھ سالہ مارشل لا اٹھایا گیا تو آٹھویں ترمیم کے ذریعے دستور کی پارلیمانی پہچان کا ستیا ناس کردیا گیا ۔ جنرل ضیاالحق نے ایوان میں سیاست کے شوقینون کو جمع کرکے اسے مسلم لیگ  جونیجو کا نام دیا گیا  جب محمد خان جونیجو  جنیوا روانہ ہوئے تو  وزیر اعظم تھے  دورے سے واپس آئے تو  ہوائی اڈے پر  سلوٹ کرنے والا کوئی نہ تھا  چونکہ وہ پاکستان پہنچنے سے قبل ہی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یہ بھی دنیا کا ایک عجیب واقع تھا اسے جنیوا سمجھوتے پر اختلاف کا نام دیا گیا۔ مشرف نے بہت محنت اور سوچ بچار کے بعد  چوہدری شجاعت سے ظفر اللہ جمالی کو مستعار لیا  ، جس پر  چوہدری شجاعت کا کہنا تھا  ’’ کرتا دھرتا لوگوں نے مجھ سے وزیر  اعظم بننے کو کہا تھا مگر میںنے اپنی جماعت کا ایک بہترین آدمی مشرف کو دیا وزیر اعظم  بننے کیلئے  ‘‘ ( یہ جملہ انہوںنے جدہ میںاپنے اعزاز میںدی جانے والی ایک تقریب میںکہا ) وہ بہترین بلوچ  جنرل مشرف کو ’’باس ‘‘کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا  ۔ مشرف کو  چوہدری شجاعت کا یہ ’’بہترین ‘‘ بھی2004  ناقابل برداشت ہوگیا ۔ 2011میں تحریک انصاف کی مسند سجانے کیلئے بنائو سنگھار شروع ہوا ۔ جولائی 2018   اقتدارملا ۔ اب ایک مرتبہ پھر بادل اپنے اندر پانی لئے ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی بازی گر اور خاندان  جو اقتدار اوروطن عزیز کا اپنی جاگیر  تصور کرتے ہیں کٹھ پتلی ڈرامے کی نئی  قسط  کیلئے تیار ی کرنا شروع کررہے ہیں  ۔ ملکی تاریخ کے ستر سالہ سے دور میں اس ملک نے صرف فوجی طاقت اور آبادی میں صرف اضافہ ہی کیا ہے  باقی معاملات میں جن میں معیشت اہم ہے  اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ توجہ ہوتی بھی تو کیسے جب  ملکی معیشت سے فائدہ  اٹھانے والے اپنی خاندانی ضروریات کو اول  اور  ملک کے معاشی استحکام کو  دوم یا  سوئم  سے بھی نچلے درجے  پر رکھیں  ہمارے معاشی اشاریے مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ حکومت کو پانچ سال نہیںہوئے ، یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ  عوام مہنگائی، بے روزگاری کے بھنور میں پھنسے ہیں ، انتخابات میں زائد عرصہ باقی نہیں بچا  ایسی صورتحا ل میں  اب نہ جانے ایسی کیاافتادہ آ پڑی ہے کہ تمام  حاضر اسٹا ک میں  موجود  حزب اختلاف  کی  ’’دڑکیاں  ‘‘ لگی ہیں اور ملاقاتوں ، عشائیوں کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے حزب اختلاف کی بے معنی کوششوں کو  لگتا ہے ۔2018 ء کے انتخابات سے قبل خود تحریک انصاف کے اپنے  آسمان جیسے بلند وعدے ہیں جس پر دس فیصد بھی عمل درآمد نہیںہوئی ۔ اس پر زخموںپر نمک چھڑکنے والے ترجمانوں کے جتھے  جو بیان دیتے ہیںوہ مزید تکلیف دہ ہوتے ہیں وہ اصل صورتحال کے برعکس عوام کو  مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ’’ جمہوری عمل میں حزب اختلاف کا بھی اپنا مقام ہوتا ہے انہیں کرپٹ کہہ کر دیوار سے نہیں لگایا جاتا،  اگر وہ کرپٹ ہیں تو  پھر  قانون کی حکمرانی ایسی ہونی چاہئے کہ انہیں اسکی  فوری سزا دینے کیلئے قانون میں تبدیلی ہونا چاہئے ،جس میں انصاف ہو ،ثبوت ہوں،حال ہی میں شہزاد اکبر نے کرپٹ لوگوں کو  سزا دینے ، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند وعدے کیے  اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد اپنی کاکردگی کا صفر بھی نہیںلا سکے ماسوائے اسکے صرف میڈیا ٹرائل کیا بالاخر وزیر اعظم نے  انہیں گھر بھیج دیا ،سوال یہ ہے کہ جس عوام کیلئے تگ و دو ہورہی ہے وہ اس کھیل میں کہاں ہے‘ پھر  وہی میوزیکل چیئر کا کھیل ۔عوام کے قسمت میں مایوسی ہی ہے مثبت حل کسی کے پاس نہیں ۔ نہ ہی حزب اختلاف اسکا دعوی کررہی ہے ، مگر در درگھوم ضرور رہی ہے ، اگر اس  بھان متی کے کنبے کو ملاکر حکومت بھی بنی تو وزراء کی تعداد سو سے کم نہیں ہوگی  اور اسکے وزیر اعظم کے امیدوار بھی کئی ہونگے ۔ پانچ سال مکمل ہونے دیں اور اپنے۔ زور بازو پرانتخابات جیت کر حکومت میں آئیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن