یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
رانا پرویز ایڈووکیٹ میرے بہت اچھے دوست ہیں انکو جب بھی کال کرتا ہوں تو انکی واٹس ایپ تصویر پر حبیب جالب کا یہ شعر لکھا ہوتا ہے.
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
میں نے رانا صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ تصویر کیوں لگائی ہوئی ہے تو وہ کہنے لگے کہ یہ شعر ہمارے نظام کی ٹھیک عکاسی کرتا ہے. ہمارا معاشرہ مطلب پرستی میں دھنسا جا رہا ہے، لوگوں میں خلوص ختم ہوتا جا رہا ہے۔ رعیا کاری اور دکھاوا کوٹ کوٹ کر بھرا پڑا ہے۔ اگر آپ کسی سے بھلائی کرتے ہو تو وہی آپ کا دشمن بن جاتا ہے۔عدم برداشت کی بات کی جائے تو معاشرے میں کسی دوسرے کی بات کو تحمل سے سننا کوئی گوارا نہیں کرتا، احساس نام کی چیز سے لوگ نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں اور خود غرضی دلوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ جب رانا صاحب نے یہ باتیں کیں تو میں نے سوال کیا کہ آپ اس معاشرے سے اتنا خفا کیوں ہیں۔ آپ کی سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن کچھ رعایت تو دیں یہاں اچھے لوگ بھی تو ہیں۔ رانا صاحب کہنے لگے جن اچھے لوگوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، برے لوگوں کی اکثریت ہے جو اس نظام پر حاوی ہو چکے ہیں اور جو اچھے لوگ ہیں وہ ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ہمارے معاشرے میں روزانہ بچوں پر تشدد، لڑکیوں سے زیادتی، مذہب کے نام پر قتل و غارت، رشتہ داروں کی زمین پر ناجائز قبضہ، غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں تو کتنے فیصد اچھے لوگ ان پر آواز اٹھاتے ہیں۔میں نے رانا صاحب سے عرض کی ہم میڈیا والے ان سب چیزوں کو رپورٹ کرتے تو ہیں، تو وہ کہنے لگے بالکل آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں، میڈیا والے معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں، معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ سب کچھ میڈیا کے ذریعے ہی پوری دنیا تک پہنچ پاتا ہے لیکن میڈیا بھی کسی حد تک چند کیسز کی نشاندہی کرتا ہے، مثال کے طور پر اسلام آباد میں ایک سابق سفیر کی بیٹی کے قتل کو تو میڈیا نے خوب کوریج دی مگر جب کسی دور دراز علاقے یا گاؤں میں کسی یتیم بچی یا بچے سے زیادتی ہوتی ہے تو تب میڈیا اس پر وہ توجہ نہیں دیتا جو ایک امیر زادے کے بچے پر دیتا ہے۔ اسی طرح میڈیا والے ایک خاص پراپرٹی ٹائکون کے خلاف بھی خبر نہیں چلا سکتے کیونکہ میڈیا والوں کو اس سیٹھ سے کروڑوں کا بزنس ملتا ہے۔ باقی ٹھیک ہے جتنا کام میڈیا اس معاشرے کے لئے کر رہا ہے وہ قابل ستائش ہے۔رانا صاحب موڈ میں لگ رہے تھے تو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ایک اور سوال کیا کہ اس سسٹم سے آپ اتنے تنگ ہیں تو اس سسٹم کی خرابی کا ذمہ دار آپ کسے سمجھتے ہیں۔ رانا صاحب کہنے لگے کہ، آپ نے ہی اپنے ایک کالم میں برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کی بات لکھی تھی کہ اگر عدالتی نظام ٹھیک ہو اور اگر عدالتیں اپنا کام ٹھیک کر رہیں ہوں اور لوگوں تک انصاف پہنچ پا رہا ہو تو پھر کوئی بھی ملک تباہ نہیں ہو سکتا لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ انصاف ہے. امیر کے لئے جلدی انصاف ہے اور غریب کے لئے کورٹ میں تاریخ پر تاریخ ہے. جبکہ انصاف نہیں ہے، میں خود بھی وکیل ہوں اور کورٹ میں لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ بیان نہیں کر سکتا۔عدلیہ کے بعد اس سسٹم کی خرابی کا سب سے بڑا ذمہ دار افسر شاہی طبقہ ہے. ہمارے پڑھے لکھے افسران جو سی ایس ایس، پی ایم ایس کر کے آتے ہیں اور پھر ایس پی، ڈی سی لگتے ہیں یہ لوگ سسٹم کو چلاتے ہیں اور اگر سسٹم ٹھیک نہیں چل رہا ہے تو لازماً پھر یہی لوگ ہی ذمہ دار ہوئے نا۔ رانا صاحب نے کئی ایسے لوگوں نام بتائے جو پڑھے لکھے نہیں لیکن وہ اپنی فیلڈ میں کامیاب ہیں، جبکہ ہمارا افسر شاہی کا طبقہ تو اتنا پڑھا لکھا اور شعور رکھتا ہے وہ کیوں سسٹم کو ٹھیک کرنے میں ناکام ہیں۔ آپ کوئی بھی محکمہ دیکھ لیں عوام کی داد رسی کے لئے کچھ نہیں ہورہا۔ اے سی، ڈی سی، ایس پی، ڈی ایس پی کے کمروں کے باہر غریب عوام خوار ہو رہے ہوتے ہیں لیکن یہ افسران طاقت کے نشے میں انکی بات نہیں سنتے۔رانا صاحب کی یہ سب باتیں سن کر مجھے بھی ایسا لگا کہ اس سسٹم کا شاید کچھ نہیں ہو سکتا۔
بے نام سے سپنے دکھلا کر
اے دل ہر جا نہ پھسلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر