پی ایس ایل، ٹریفک کے مسائل، پنجاب پولیس اور سیف سٹیز اتھارٹی کی کارکردگی!!!!!
پاکستان سپر لیگ کے میچز لاہور میں ہو رہے ہوں تو شہریوں کو ٹریفک مسائل کا سامنا رہتا ہے۔بالخصوص ٹیموں کی آمدورفت کے وقت چند منٹوں کے لیے ٹریفک روکی جاتی ہے تو بحالی میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ بہرحال اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے مقابلوں کا مسلسل انعقاد ملک کے بہتر مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے۔ کرکٹ میچز کا تسلسل کے ساتھ انعقاد بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو بحال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کئی برسوں تک ہم بین الاقوامی کرکٹ اور اس طرح کے مقابلوں سے محروم رہے۔ یہ صرف کرکٹ کے مقابلے ہی نہیں ہیں بلکہ کرکٹ میچز کا تسلسل سے انعقاد ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ چونکہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آ چکی ہے دو ہزار پندرہ سے شروع ہونے والا یہ سفر اب آسٹریلیا اور انگلینڈ کی آمد اپنی منزل پر پہنچ رہا ہے۔ ملک میں امن و امان کے حالات بھی بہت اچھے ہیں۔ دہشت گردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرتے ہوئے ملک میں امن بحال کیا ہے۔ ملک میں امن اور کرکٹ کی بحالی کے بعد اب ہمیں معمول کی زندگی کی طرف بھی واپس آنا ہے اور ٹریفک مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے۔ کرکٹرز کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے شہریوں کا خیال بھی رکھنا ہے۔ چونک میچز کا انعقاد صرف دو شہروں میں ہو رہا ہے اس لیے دو ہفتوں تک روزانہ بند سڑکوں سے شہریوں کے معمولات زندگی ناصرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ شدید ذہنی تکلیف بھی جھیلنا پڑتی ہے۔ گذشتہ چند برسوں کی حکمت عملی، منصوبہ بندی ا ور امن و امان کے حالات کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ پاکستان سپر لیگ مقابلوں کے دوران شہریوں کو ٹریفک مسائل سے بچانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن و امان کے حالات بہتر ہونے کے باوجود فیصلہ سازوں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے شہریوں کو تکلیف کا سامنا ہے۔ پنجاب حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران کی طویل میٹنگز میں نجانے کیا بحث ہوتی رہی کہ کئی رابطہ سڑکیں خراب ہونے کے باعث شہری مشکلات کا شکار ہیں، ایسے بے تکے مقامات سے ٹریفک کو موڑا گیا ہے جہاں بہاؤ بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوا اور ناصرف قیمتی وقت ضائع ہوا بلکہ پیٹرول پر پیسے بھی ضائع ہوئے اور آلودگی میں بھی اضافہ ہوا۔ ٹریفک ڈائیورز کی آگاہی کے لیے نصب کی گئی چیزوں کی وجہ سے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا ضلعی انتظامیہ نہیں جانتی تھی کہ فروری میں پی ایس ایل کے میچز ہونے ہیں پھر کیوں ترقیاتی کام لاہور میں میچز شروع ہونے سے پہلے مکمل نہیں کیے گئے۔
پنجاب پولیس کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ شہریوں سے بدتہذیبی کے واقعات معمول ہیں۔ پولیس اہلکار شہریوں کے لیے سہولت پیدا کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ میچ دیکھنے کے لیے آنے والوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہر روز پروٹوکولز بدلے ہوتے ہیں، ایک دن آپ ایک جگہ سے گذرتے ہیں دوسرے آپ پر وہ راستہ بند ہوتا ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے لیکن ہم پچاس سال پرانے طریقوں سے چل رہے ہیں۔ کیا آئی جی پنجاب نہیں جانتے کہ شہر کی چار بڑی سڑکوں کو بند کر دیا جائے تو ٹریفک کا کیا حال ہو جاتا ہے۔ کیا صرف بیانات جاری کرنا ہی بہتر انتظامات کا ثبوت ہے۔ ٹریفک کا بہاؤ بہتر رکھنے کے لیے کیوں بہتر راستوں کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ ایکریڈیشن رکھنے والے افراد کو جگہ جگہ روکا جاتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کو بہت آزادی بھی حاصل ہے۔ نجانے کیا وجہ ہے کہ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی جیسا ادارہ جہاں مانیٹرنگ کا جدید ترین نظام موجود ہے اس سے استفادہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔ ایسا شاندار نظام جہاں ہر شہری پر نظر رکھی جا سکتی ہے وہ بہتر حکمت عملی ترتیب دینے ا ور اچھی تجاویز دینے میں کیوں ناکام ہے۔ کیا ہر وقت کیمروں سے شہر کی مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ کیوں ہم مانیٹرنگ اور ٹریفک مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جدید ترین نظام کی طرف نہیں بڑھ رہے۔ ہمارے راستے میں کیا رکاوٹ ہے۔ سیف سٹی کے اعلیٰ افسر زیادہ چالان کرانے والی گاڑی کے پکڑے جانے پر تو ٹیلی ویژن پر نظر آتے ہیں لیکن شہر کے خراب کیمروں کی رپورٹ پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے کے باوجود اس معاملے میں سستی و کوتاہی پر ان کا موقف کہیں پڑھنے کو نہیں ملا۔ سیف سٹیز اتھارٹی کے اعلیٰ افسر پرائیویٹ چینلز کو انٹرویوز ضرور دیتے رہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے کام پر بھی توجہ دیں۔ پنجاب حکومت، ضلعی انتظامیہ اور آئی جی پنجاب کو اس حوالے سے ضرور بہتر حکمت عملی تیار کرنا چاہیے تھی۔
کرکٹ بورڈ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم چار شہروں میں پی ایس ایل میچز کروائے، حکومت میچز کے دنوں میں دفتروں اور بازاروں کے اوقاتِ کار کو تبدیل کرنے کے لیے کام کرے۔ بہتر انتظامات سے پی ایس ایل کی مقبولیت اور زیادہ سے زیادہ شائقین کرکٹ کو سٹیڈیم تک لایا جا سکتا ہے۔ لوگوں نے بہت قربانی دی اور سب کچھ برداشت کیا لیکن اب عام آدمی کی قربانی کے بجائے فیصلہ سازوں کو اپنے اصل کام پر بھی توجہ دینی چاہیے ہر وقت عام آدمی سے قربانی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
ٹریفک مسائل کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ "پی ایس ایل نے ہمارے سارے کام کا بیڑا غرق کر دیا ہے ایک بار پی ایس ایل ہو لینے دیں پھر اسے سنجیدگی سے لیں گے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ٹریفک کا ایسا مسئلہ تو صدر اور وزیراعظم کے آنے پر بھی نہیں ہوتا۔ پی ایس ایل کے لیے کوئی ٹریفک پلان نہیں ہے۔دورانِ سماعت واٹر اینڈ انوائرمنٹ کمیشن نے بتایا کہ کرکٹ بورڈ تعاون نہیں کر رہا، آج کل کرکٹ بورڈ اپنے لوگوں کے آنے جانے کیلئے بھی روٹ لگواتا ہے، اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشکلات لوگوں کے لیے ہیں۔ موقع دے رہا ہوں آئندہ پی ایس ایل کیلئے پی سی بی کے ساتھ ٹریفک پلان یقینی بنائیں، اگر ایک مہینے کا ٹورنامنٹ کروانا ہے تو ٹریفک کو تو مینج کریں"۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس بدانتظامی پر کوئی کارروائی ہوتی ہے یا نہیں لیکن یہ طے ہے کہ ہر مرتبہ شہریوں کو اس برے انداز میں نظر انداز کرنے سے عدم برداشت بڑھ جاتا ہے اور عدم تعاون کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے۔