• news

علی گڑھ کالج میں بھی حجاب پر پاببدی کرناٹک لیکچر ر کا سکارف اتارنے سے انکار استعفیٰ دیدیا

نئی دلی‘ بنگلورو (نوائے وقت رپورٹ) کرناٹک کے بعد علی گڑھ کے کالج میں بھی حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف کرناٹک میں حجابکے معاملے پر مسلمان طالبات کو ہراساں کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ڈگری کالجوں نے لڑکیوں کے سکارف کے ساتھ کیمپس میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انجمن اسلام پولی ٹیکنیک کالج، سری وجیا مہانتیش کالج، ایلکل باگل کوٹ ان کالجوں میں شامل ہیں جنہوں نے مسلم لڑکیوں کے کالج میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری حکم جس میں کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں کوئی مذہبی لباس نہیں پہنا جانا چاہیے ریاست میں سینکڑوں مسلم لڑکیوں کو سر پر سکارف پہننے سے روکا گیا۔ مسلم لڑکیوں کے سکول کیمپس کے دروازوں پر ہراساں کیے جانے کے درجنوں واقعات نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ریاست کے شہر ٹمکور میں ایک کالج کے شعبہ انگریزی کی لیکچرر نے حجاب ترک کرنے کا کالج پرنسپل کا حکم ماننے کے بجائے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کیخلاف کالج کا 17 سال کا طالب علم بھی میدان میں آ گیا اور پولیس سے الجھ پڑا۔ کرناٹک میں طالبات کے حجاب لینے پر عائد پابندی پر بھارت کی مشہور و معروف شخصیات تو خاموش ہیں لیکن مقامی کالج کا ایک 17 سالہ طالب علم حجاب کے حق میں پولیس اہلکاروں سے الجھ گیا۔ اپنے دوستوں کیساتھ موجود لڑکے نے پولیس والوں سے سوال کیا کہ باحجاب طالبات کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہیں۔ ان کا سال ضائع ہونے سے بچایا جائے اور کلاسز لینے کی اجازت دی جائے۔ پولیس اہلکار جواب میں لڑکے سے غصے سے بات کرتے ہیں اور اسے کالج کے گیٹ کے سامنے سے ہٹا دیتے ہیں۔ ہالینڈ کے شہر  روٹر ڈیم میں ایراسمس یونیورسٹی کی طالبات نے بھارتی مسلمان لڑکیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک بیان جاری کیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سو سے زائد طالبات نے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی مسلمان طالبات کو ہندو اکثریتی دھمکیوں اور ریاستی حمایت یافتہ تشدد کے تحت وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی طالبات نے جن میں زیادہ تر بھارتی نژاد ہیں مشرکہ بیان میں کہا کہ ہم غیر مشروط طور پر مسلم طالبات کی مزاحمتی کارروائیوں کی حمایت اور ان کے مطالبات کی توثیق کرتی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حجاب پر حملے بھارت میں مسلم خواتین پر جاری حملوں کے پس منظر میں ہوئے ہیں جو کہ اکثر ریاست کی خفیہ حمایت سے ہندوتوا والوں کے ذریعہ آن لائن نیلامی کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ واقعات اسلامو فوبیا کی عکاسی کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کا مقصد مسلمان طالبات کو نشانہ بنانا ہے کہ وہ اپنی مسلمانیت کو ترک کریں اور ہندو شناخت کے مترادف اکثریتی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھیں۔ بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط جموں وکشمیر میں غیر قانونی طور پر نظر بند میر واعظ عمر فاروق کی سرپرستی میں قائم متحدہ مجلس علماء نے بھارت میں مسلمان خواتین کو نشانہ بنانے کی مذمت کی ہے اور ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ مسلمان خواتین کو سوشل میڈیا کے ذریعے یا کالجوں اور سکولوں میں حجاب پہننے سے منع کر کے انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش انتہائی قابل مذمت اور تضحیک آمیز ہے۔ مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دائیں بازو کے ہندو طبقے کی طرف سے فرقہ وارانہ زہر پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے۔ ایم ایم یو نے حکام پر زور دیا کہ حجاب پہننے والی مسلم طالبات  کو سکولوں اور کالجوں میں پہلے کی طرح بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے اور شرپسندوں کو اپنی سرگرمیوں سے باز رکھا جائے۔ ایم ایم یو نے کہا کہ جموں و کشمیر کے مسلمان کرناٹک کی ان بہادر لڑکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اپنے بنیادی حق تعلیم اور مذہب پر عمل کرنے کے حق کے لیے دلیری سے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ایران میں یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء نے بھارتی حکومت کی جانب سے تعلیمی مراکز میں حجاب والی لڑکیوں کی موجودگی کو روکنے کے اقدامات کے خلاف بھارتی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا۔ تہران کی یونیورسٹیوں کے طلباء نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پرنعرے درج تھے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔
حجاب

ای پیپر-دی نیشن